برطانیہ میں پرتشدد مظاہرے جاری، 6 دن میں 400 سے زائد شہری گرفتار

منگل 6 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برطانیہ کے مختلف شہروں میں نسل پرستوں کے پرتشدد مظاہرے جاری ہیں، 6 روز سے جاری ہنگامہ آرائی اور پولیس سے تصادم کے واقعات میں اب تک 400 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق، چند روز قبل ساؤتھ پورٹ میں 3 کم عمر بچیوں کے قتل کے بعد سے برطانیہ کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کے مظاہرے جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں چاقو سے حملے میں 2 بچے ہلاک، 9 افراد زخمی

گزشتہ 6 روز سے جاری واقعات میں مشتعل افراد نے پولیس اسٹیشنز کو آگ لگائی، توڑ پھوڑ کی اور متعدد دکانیں لوٹ لیں۔ اس دوران مشتعل افراد اور پولیس کے درمیان تصادم کے بھی متعدد واقعات سامنے آئے جن میں سینکڑوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

پیر کی شام کو مشتعل مظاہرین نے پلائیماؤتھ میں پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا اور ان کی گاڑی کو نقصان پہنچایا جبکہ بیلفاسٹ شہر میں مظاہرین نے پولیس پر پیٹرول بم پھینکے۔

برمنگھم میں پیر کی شام احتجاجی مارچ سے متعلق افواہ کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ’بورڈیسلے گرین‘ ایریا میں جمع ہوگئے، مظاہرین نے فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور وہ برطانوی دفاعی حکام کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے مختلف شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں، متعدد زخمی و گرفتار

بعد ازاں، نوجوانوں کے گروپ نے علاقے میں واقع ایک پب پر حملہ کیا اور متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں تاحال کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا، پولیس ابھی اس معاملے کی تحقیقات کررہی ہے۔

برطانوی حکام نے پرتشدد واقعات کا ذمہ دار سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی افواہوں کو قرار دیا ہے۔ برطانوی وزيراعظم کیئر اسٹارمر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلائی گئی کہ قاتل مسلمان اور غیرقانونی تارک وطن ہے، سوشل میڈیا نے ان لوگوں کو بھی بولنے کا موقع فراہم کیا جن پر پہلے پابندی تھی۔

برطانوی حکومت نے ہنگامہ آرائی میں ملوث ملزمان کو سزائیں دینےکے لیے عدالتیں 24 گھنٹے کھلی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہےکہ غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں، واقعہ دہشت گردی ہے اور نہ ہی ملزم مسلمان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کی وزیر برائے انصاف شبانہ محمود کون ہیں؟

برطانوی وزيراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ کسی بھی قسم کے تشدد کے لیے جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی اظہار رائے اور تشدد 2 الگ چیزیں ہیں، سڑکیں محفوظ رکھنے کے لیے ہرممکن کارروائی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 30 جولائی کو برطانیہ کے علاقے ساؤتھ پورٹ میں ایک 17 سالہ نوجوان نے چاقو سے حملہ کرکے 3 کم عمر بچیوں کو قتل جبکہ 6 بچوں سمیت 9 افراد کو زخمی کردیا تھا۔

پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چاقو حملے میں ملوث 17 سالہ لڑکے کو گرفتار کرلیا تھا، جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کا نام ایکسل روڈاکوبانا ہے اور وہ ویلز کے شہر کارڈف میں پیدا ہوا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp