بنگلہ دیش میں گزشتہ ہفتے کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبا کی جانب سے شروع کی گئی سول نافرمانی تحریک کے دوران پرتشدد مظاہرے ہوئے اور طلبا اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ٹکراؤ ہوا جس کے نتیجے میں کم از کم 300 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جس کے بعد طلبا مظاہرین نے شیخ حسینہ واجد سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد بنگلہ دیش کی فوج نے بھی شیخ حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد بھارت فرار ہونے پر کیوں مجبور ہوئیں؟
پرتشدد وقعات کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ مستعفی ہوکر ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں، ان کے استعفے سیاسی، سفارتی و صحافتی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے، کیوں کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت بھارتی ایما پر ہی گزشتہ 15 سال سے ملک پر مسلط تھی۔
شیخ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار ہوکر بھارت آمد پر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پیر کی شب میں کابینہ کمیٹی برائے سلامتی کے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بلایا، جس میں علاوہ وزیرِ داخلہ امت شاہ، وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر، وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور انٹیلی جینس اداروں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش سے فرار کے بعد شیخ حسینہ واجد کا مستقل ٹھکانہ اب کیا ہوگا؟
کانگریس کے ذرائع کے مطابق لوک سبھا میں حزبِ اختلاف کے قائد راہل گاندھی نے بھی ایس جے شنکر سے ملاقات کرکے بنگلہ دیش کے حالات پر گفتگو کی، بھارت نے بنگلہ دیش کی عسکری قیادت سے اپیل کی وہ حالات معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے، مودی سرکار نے شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے بعد بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ جنرل وقار الزماں کو قیامِ امن میں ہر طرح کا تعاون دینے کی بات کہی ہے۔
بھارت کے سرحدی محافظ دستے الرٹ
ادھر بھارتی حکومت نے سرحدی محافظ دستے ’بارڈر سیکیورٹی فورس‘ (بی ایس ایف) کو 24 گھنٹے الرٹ رہنے کا حکم دیا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان 4096 کلومیٹر طویل سرحد ہے، سرحد پر آمد و رفت بند، ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی میتری بس بھی روک دی گئی ہے، ریلویز نے ٹرینیں اور ایئر انڈیا اور نجی ایئر لائنز انڈی گو نے اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔
عالمی حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت شیخ حسینہ واجد کو اپنا دوست سمجھتا ہے اور بنگلہ دیش میں ان کی جماعت ’عوامی لیگ‘ کی 15 سالہ حکومت میں بنگلہ دیش سے بھارت کے بہت اچھے روابط رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سنگا پور میں گھر اور رہائشی پلاٹس، شیخ حسینہ واجد کتنے اثاثوں کی مالک نکلیں؟
بنگلہ دیش کے موجودہ حالات بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ
تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے اور صورتِحال میں استحکام آئے گا، تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
سینیئر بھارتی تجزیہ کار گوتم لاہری کا کہنا ہے کہ اب بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کا ابھار ہوگا جو بھارت کے لیے بہر حال خطرے کی گھنٹی ہے، بھارت اور بنگلہ دیش کی ترقی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت قبل ہی بنگلہ دیش کے لیے بھارت کی مدد جاری تھی اور دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات تھے۔
ان کے بقول بنگلہ دیش کو بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور سابقہ حکمراں جماعت ’کانگریس‘ دونوں کی حمایت حاصل رہی ہے اور دونوں کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش میں موجود شمال مشرقی ریاستوں میں شورش کے خلاف سخت کارروائی کی تھی اور شر پسندوں کو گرفتار کرکے بھارت کے حوالے کیا تھا،اس کے بعد سے شمال مشرقی ریاستوں میں امن ہے۔
بنگلہ دیش میں نئی حکومت پر جماعتِ اسلامی کا اثر ورسوخ ہوگا
گوتم لاہری کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے کسی معاملے پر بنگلہ دیش میں جب بھی احتجاج ہوا تو شیخ حسینہ کی حکومت نے بھارت مخالف عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جس کے نتیجے میں بھارت مخالف رجحانات دب گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کون ہیں؟
ان کا کہنا ہے کہ اب وہاں اسلامی انتہا پسند ابھر کر آئے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہے، لیکن اگر ان کے ساتھ نرمی کی گئی تو بھارت کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ چوں کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں میں بھارت مخالف جذبات کا بھی دخل ہے لہٰذا ب وہاں بھارت کے مفادات پر اثر پڑ سکتا ہے، بنگلہ دیش میں نئی حکومت پر جماعتِ اسلامی کا اثر رہے گا۔ مظاہروں میں جماعتِ اسلامی کے کارکن بھی شامل رہے۔
جماعتِ اسلامی سے بھارتی حکومت کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے بھی جماعتِ اسلامی کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے۔
بھارت کے ایک اور سینیئر تجزیہ کار بھارتی مشرا ناتھ بھی موجودہ صورتِ حال کو بھارت کے لیے خطرناک تصور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شمال مشرق کے شورش پسند گروپ ایک بار پھر بنگلہ دیش میں سرگرم ہو سکتے ہیں، بنگلہ دیش اور بھارت کی باہمی تجارت بھی نمایاں طور پر متاثر ہوگی کیوں کہ بھارت اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی زمینی بندرگاہ ’پیٹراپول‘ پر تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔
بنگلہ دیش میں چین کا اثرو رسوخ بڑھے گا
مشرا ناتھ کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ کے دور میں بھارت اور چین کے ساتھ بنگلہ دیش کے متوازن تعلقات تھے۔ شیخ حسینہ چین کے ساتھ اپنی تمام تر تجارتی شراکت داری کے باوجود بھارت کے مفادات کا خیال رکھتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کے مجسمے پر عوام کا حملہ، ویڈیو وائرل
ان کا کہنا ہے کہ چین بنگلہ دیش میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ اب نئی صورتحال میں وہاں چین کی سرگرمیوں کے بہت زیادہ بڑھ جانے کا خدشہ ہے، یہ صورتحال بھی بھارت کے لیے تشویشناک ہے۔