بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسحاق احمد خٹک افغانستان میں پاکستان کے قونصلر رہے ہیں اور حال ہی میں ان کی ایک کتاب دی لاسٹ وار کے نام سے شائع ہوئی جو بنیادی طور پر افغانستان سے امریکی انخلا اور ایک بار پھر اقتدار میں طالبان کی واپسی سے متعلق بات کرتی ہے۔
بریگیڈیئر اسحاق خٹک افغان امور کے ماہر ہیں۔ وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا چینی اقتصادی راہداری امریکی مفادات کے خلاف ہے اور اسی لیے خطے میں کسی نہ کسی صورت عدم استحکام رکھا جاتا ہے، خواہ وہ داعش ہو یا اسماعیل ہنیہ کا قتل ہو۔
موجودہ طالبان حکومت زیادہ مضبوط ہے
وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت 1996 کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اب سفارتی طور پر زیادہ آگاہ اور متحرک ہیں۔ ان کی 10، 12 ملکوں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے اور امریکا بھی ان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر ہفتے وہاں موجود غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز کو 4 کروڑ ڈالر دیے جارہے ہیں۔ اس طالبان حکومت کے ساتھ کوئی نہیں لڑ رہا جبکہ 1996 والی افغان حکومت کے ساتھ شمالی اتحاد، گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود جنگ لڑرہے تھے۔
اسحاق خٹک کا کہنا تھا کہ 2001 میں جب طالبان حکومت ختم ہوئی تب بھی ان کے پاس 80 فیصد علاقہ تھا جبکہ ان کے مخالفین 20 فیصد علاقے پر قابض تھے۔ اس وقت موجودہ افغان حکومت کو این آر ایف کے نام سے ایک چھوٹی سی مزاحمت کا سامنا ہے جو کبھی کبھی، کہیں کوئی ٹارگٹ کلنگ کردیتی ہے، ہاں البتہ داعش طالبان سے لڑ رہی ہے۔ اس وقت معاشی طور پر وہ کافی بہتر ہیں، حال ہی میں انہوں نے کئی ارب ڈالر کا تو ڈرائی فروٹ ہی بیچا ہے۔
ٹی ٹی پی اور سابق افغان قوم پرست دونوں پاکستان مخالف کیوں؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بارے میں تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغان طالبان حکومت کی مدد حاصل ہے یا نہیں لیکن ان کو افغانستان میں پناہ ضرور ملتی ہے اور وہ بلا روک ٹوک پاکستان میں آتے، جاتے اور تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لیے ہمیں افغان حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی پڑے گی کہ یہ ٹی ٹی پی والے صرف پاکستان کے لیے خطرہ نہیں بلکہ افغانستان کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسحاق خٹک نے کہا کہ یہ لوگ پیسوں کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ پیسوں کے لیے بھارت اور سابق افغان حکومت کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ سابق افغان حکومت کا حصہ بھی تھے اور اب یہ بیرون ممالک بیٹھ کر پاکستان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کوئی بھی پیسے دے کر استعمال کرسکتا ہے تاہم ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
موجودہ طالبان حکومت الزام لگاتی ہے کہ پاکستان داعش کی حمایت کرتا ہے
بریگیڈیئر اسحاق خٹک نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت میں ہم نے طالبان کو بڑی حمایت فراہم کی لیکن بعد میں جب دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو ہم نے ان کی حمایت ختم بھی کردی۔ بعد میں آنے والے سالوں میں پاکستان پر یہ الزام بھی لگتا رہا کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کرتا رہا ہے جبکہ ہم پر طالبان الزام لگاتے تھے کہ پاکستان امریکا کی مدد کررہا ہے اور افغان یہ کہتے تھے کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کر رہا ہے۔ اب یہی طالبان حکومت میں آکر الزام عائد کر رہے ہیں کہ پاکستان داعش کی حمایت کررہا ہے اور یہ بڑی پیچیدہ صورتحال ہے۔
ٹی ٹی پی کو افغان طالب کیوں سپورٹ کررہے ہیں؟
ٹی ٹی پی والے وہ ہیں جو افغان طالب کے ساتھ مل کر امریکا کے خلاف جنگ لڑتے رہے ہیں اور افغان طالب اپنی روایات کی وجہ سے ان کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوسکتے لیکن وہ ان کو دہشتگردی سے روک سکتے ہیں۔
بریگیڈیئر خٹک نے کہا پاکستان میں طالبان کے خلاف سخت آپریشن ہونا چاہیے، ان کی پناہ گاہوں اور ان کے مواصلاتی رابطوں کو تباہ کیا جانا چاہیے جبکہ افغانستان میں بیٹھے ٹی ٹی پی کے لیے پاکستان کو طالبان حکومت سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی جانب سے کئی آپریشن چل رہے ہوتے ہیں
بریگیڈیئر اسحاق نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے ان کے خلاف کئی آپریشنز چل رہے ہوتے ہیں اور ہماری اچھی خاصی ملٹری ان علاقوں میں تعینات ہے۔ کئی حملے ردِعمل میں بھی کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے اچھے خاصے لوگ مر بھی رہے ہوتے ہیں لیکن یہ فوج سے زیادہ پولیس پر حملے کرتے ہیں کیونکہ پولیس ان کے لیے آسان ہدف ہوتی ہے۔