2009 میں پہلی بار ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ترکستان گروپ اور عبداللہ محسود گروپ کے نام سے گڈ طالبان گروپس سامنے آئے جن کا بظاہر کام تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت اور سیکورٹی فورسز کی مدد کرنی تھی لیکن عملی طور پر ان گروپوں کے ادا کئے گئے کردار کی وجہ سے عام لوگوں کی ریاستی اداروں پر اعتماد میں شدید کمی آئی۔ ان دنوں چونکہ خبر کے ذرائع محدود تھے اور سوشل میڈیا کے بارے میں کم ہی لوگوں کو معلومات تھیں یا پھر یوں کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کی دلچسپی نہیں تھی، دوسری طرف مین سٹریم میڈیا میں ان گروپوں کے بارے میں خبریں ناپید رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں گڈ طالبان کے وجود کے بارے میں بڑی دیر سے پتہ چلا لیکن بطورِ ان علاقوں کے ایک شہری مجھے لگتا ہے کہ گڈ طالبان کی ریاستی پالیسی انتہائی غلط تھی جس کی وجہ سے پختونخوا میں بنیادی ریاستی بیانیے پر منفی اثرات پڑے۔
دوستوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ عام لوگوں پر اس کے منفی اثرات کیسے پڑے جبکہ ان گروپوں نے اداروں کے سائے تلے کام کیا تھا؟ بدقسمتی سے اس ملک میں اگر کوئی کام اصلاح کے لیے بھی شروع کر دیا جائے، زیادہ تر اس کام کے منفی اثرات ہی پڑتے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر نیب کرپشن کی روک تھام کے لیے بنایا گیا لیکن خود کرپشن کا گڑھ بن گیا۔ اسی طرح کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ نیب اور اس طرح کے دیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شامل ہوئے جبکہ گڈ طالبان میں اس کے بالکل متضاد لوگ شامل ہوئے۔ جہاں جہاں یہ گروپس بنے ان علاقوں میں عام عزت دار اور سفید پوش لوگوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی نفرت میں بدلنی شروع ہوئی۔ بجائے اس کے کہ اس پالیسی کو ختم کردیا جاتا 2017/18 کے بعد اس پالیسی میں مزید تیزی آئی اور مختلف اضلاع میں غیر اعلانیہ طور پر ایک طرح سے ایک ایسا متبادل نظام وجود میں آیا جو پہلے ہی سے اس پالیسی سے تنگ عوام کے لیے مزید تکالیف کا سبب بنا۔
کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ اس پالیسی میں ان دنوں تیزی لائی گئی جب خیبرپختونخوا کے لوگ دہشت گردی کے خلاف غلط ریاستی پالیسیوں کے خلاف بات کرنے لگے تھے اور احتجاج کرنے لگے تھے۔ عموماً حیرانی کے ساتھ خود کو تسلی دیتا رہتا کہ شاید فیصلے کی قوت رکھنے والوں سے غلط فیصلے ہو رہے ہیں اور یہ پالیسیاں جان بوجھ کر نہیں اپنائی جارہی البتہ ہم جیسے خوش فہم لوگوں کے برعکس یہاں کی اکثریت ہماری سوچ کے متضاد سوچتی رہی جس کی وجہ سے ایک ایسے وقت میں جب خیبرپختونخوا میں بدامنی اور دہشت گردی عروج پر ہے، عام لوگ حکومتی بیانیے سے کوسوں دور اپنی سوچ کی دکان کھولے ہوئے ہیں۔ یقین مانیں کہ ہم سالوں سے انہی منفی اثرات کی دہائی دیتے آئے ہیں کہ خدارا روک دیجیے ایسی پالیسیاں جو اس ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے کا باعث بنیں مگر کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی ہمارا سسٹم کسی کی سنتا ہے۔ بند کمروں اور بند دماغوں کے فیصلوں کی وجہ سے آج یہی حالات ہیں کہ ہر دوسرا شہری ملک دشمن اور غدار قرار پایا ہے۔
پچھلے دنوں بنوں میں لوگوں کا اچانک اس تعداد میں گھروں سے نکل آنا ان غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ بنوں اور ٹانک کے احتجاجوں کے بعد پورے ملک میں شور اٹھا تو حکومت نے گڈ طالبان پر پابندی لگا دی اور ان کے دفاتر بند کردیے گئے۔ بظاہر اس فیصلے سے عام لوگوں میں طمانیت دیکھی جا سکتی ہے حالانکہ یہ فیصلہ بہت پہلے کرنے کی ضرورت تھی۔ اب جب گڈ طالبان پر پابندی لگا دی گئی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان گروپوں میں شامل افراد کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ان افراد کو بے یار و مددگار مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا فیصلہ ساز ایک بار پھر غلط فیصلہ کرنے جارہے ہیں؟
جیسے کہ عرض کیا کہ فیصلہ اصولی طور پر درست ہے اور عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان گروپوں میں شامل افراد گزشتہ کئی سالوں سے دہشتگردی کے خلاف ریاستی پالیسی کے عین مطابق بندوق اٹھائے اداروں کے ساتھ کھڑے رہے تھے اور اب اگر ان سے اسلحہ لے کر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا تو کیا ان گروپوں میں شامل افراد کی زندگیاں محفوظ رہیں گی؟ اس کا جواب بالکل نفی میں ہے۔ ہم بار بار ایک ہی غلطی کرتے آئے ہیں کہ ایک غلطی کو چھپانے کے لیے دوسری غلطی ضرور کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت عام لوگوں کو ان گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی لیکن جب خدانخواستہ یہ لوگ ٹارگٹ ہونا شروع ہوں گے تو عوامی سطح پر یہی سوچ پروان چڑھے گی کہ استعمال کرنے کے بعد مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
میرا ماننا ہے کہ اسی غلط اور وقتی سوچ کی وجہ سے اس وقت پختونخوا اور بلوچستان میں باعزت لوگ حکومتوں کے ساتھ تعاون کرنے سے کتراتے ہیں۔ حل کیا ہوسکتا ہے؟ میری نظر میں ریاست کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ریاست اگر چاہے تو ان لوگوں کو ملک کی کسی ایسی جگہ بسا سکتے ہیں جہاں یہ لوگ عام معاشرے کا حصہ بن سکیں، ان کے بچے پڑھ سکیں اور ایسا کرنے کی شدید ضرورت بھی ہے۔ بصورت دیگر حکومتی بیانیہ مزید کمزور ہوگا۔