بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد، جنہوں نے طلبا کی قیادت میں احتجاجی تحریک کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا اور بھارت میں پناہ لی تھی، نے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد اپنا پہلا بیان دیا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے اپنی 15 سالہ حکمرانی کے خاتمے کا الزام امریکا پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینٹ مارٹن جزیرے پر امریکا کو ایئربیس قائم کرنے سے انکار ان کی حکومت کے خاتمے اور زوال کی وجہ بنا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا بنگلہ دیش کی ’انقلابی حکومت‘ کیساتھ ملکر کام کرنیکا عندیہ
سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا مزید کہنا تھا کہ اگر انہوں نے استعفیٰ نہ دیا ہوتا تو لاشوں کے انبھار لگ جاتے کیوں کہ وہ (امریکا) لاشوں پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
شیخ حسینہ واجد نے یہ تمام باتیں اپنے اس خطاب کے متن سے بتائیں، جو وہ جلاوطن ہونے سے قبل قوم سے خطاب میں کرنے والی تھیں، بھارتی میڈیا کے مطابق ان کے خطاب کے متن میں اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ انتہا پسندوں سے گمراہ نہ ہوں۔
یہ شیخ حسینہ واجد کے قوم سے اس خطاب کے اقتباسات ہیں، جو وہ وہ اپنے استعفے سے قبل کرنے والی تھیں لیکن وہ یہ خطاب کر نہیں سکیں تھیں کیونکہ مشتعل مظاہرین ان کے گھر پہنچ چکے تھے اور سیکیورٹی حکام نے انہیں جلد از جلد ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش کی نگراں حکومت کا چارج سنبھال لیا
تاہم اب بھارت میں شیخ حسینہ واجد نے اپنے اس خطاب کے مندرجات پر میڈیا سے تبادلہ خیال کیا ہے، ایک بھارتی ٹی وی چینل کے مطابق ان کی تحریری تقریر کا جائزہ لیا گیا اور اس خطاب کے مندرجات عوام کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں
امریکا بنگلہ دیش میں ایک نئی عیسائی ریاست بنانا چاہتا ہے
76 سالہ شیخ حسینہ واجد کی تقریر کا سب سے اہم حصہ ان کا یہ الزام ہے کہ امریکا نے طلبہ تحریک اور مشتعل مظاہرین کے ذریعے حکومت کو تبدیل کرنے کی سازش۔
شیخ حسینہ واجد نے دعویٰ کیا کہ امریکا بنگلہ دیش اور میانمار کے کچھ حصوں کو ضم کرکے ایک نئی ’عیسائی ریاست‘ بنانے کی سازش کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکا چاہتا تھا کہ سینٹ مارٹن جزیرے پر ایک ایئر بیس قائم کیا جائے لیکن انہوں نے جزیرے کو امریکا کے حوالے کر کے ملک کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا 6 سال بعد منظر عام پر، پہلے خطاب میں کیا کہا؟
انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے کسی خاص ملک کو بنگلہ دیش میں ایئر بیس قائم کرنے کی اجازت دی ہوتی تو ان کی حکومت بغیر کسی مسئلے کے جاری رہتی۔
شیخ حسینہ واجد نے امریکا کی جانب سے دھاندلی کے الزامات اور جنوری میں ہونے والے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔
اقتدار اور ملک نہ چھوڑا ہوتا تو مزید خون ریزی ہوتی
اپنے استعفے اور ملک سے روانگی کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو مزید خونریزی ہوتی۔ تاہم انہوں نے قوم پر زور دیا کہ وہ امید نہ کھوئیں اور انہیں یقین دلایا کہ وہ جلد واپس آئیں گی۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیش میں انقلابی تبدیلی : بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پروپیگنڈے کا پول کھول دیا
شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ انہیں ایک عارضی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن بنگلہ دیش کے عوام جیت گئے ہیں – وہی لوگ جن کے لیے ان کے والد اور پورے خاندان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی لیگ ہمیشہ ہر بحران کے بعد مزید شدت سے ابھری ہے۔
میں نے طالب علموں کو رضاکار نہیں کہا
شیخ حسینہ واجد نے طلبا کی احتجاجی تحریک کے دوران اپنے ریمارکس کی بھی وضاحت کی، جس میں ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے کہا کہ ‘اگر مکتی باہنی کے بچوں کو کوٹہ نہیں ملتا تو کیا رضاکاروں کو یہ کوٹہ حاصل کرنا چاہیے؟’
شیخ حسینہ نے واضح کیا کہ انہوں نے احتجاج کرنے والے طلبا کو کبھی بھی ’رضاکار‘ نہیں کہا اور طلبا کو مشتعل کرنے کے لیے ان کے الفاظ کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔ انہوں نے طالب علموں پر زور دیا کہ وہ پوری ویڈیو دیکھیں۔
شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1971 کے سقوط ڈھاکہ کے دوران پاکستانی فوج کی حمایت کرنے والوں کو عوامی لیگ نے ’رضاکار‘ قرار دیا تھا۔ جب حسینہ واجد نے طلبا مظاہرین کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی تو اس پر شدید رد عمل سامنے آیا۔