کابل، مغربی ملبوسات پہنے پتلوں کا چہرہ دکھانے پر پابندی کیوں؟

پیر 12 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

افغانستان کی اخلاقی پولیس نے لباس فروخت کرنے والوں کو اپنے اسٹورز میں ڈسپلے پر لگے خواتین کے پتلوں کے چہروں اور ماڈلز کی تصاویر کو چھپانے کی ہدایت کی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق، اگست 2021ء میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد طالبان عبوری حکومت نے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے عوامی مقامات پر خواتین کے چہرے عیاں کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پیرس اولمپک گیمز: طالبان نے 3 افغان خواتین ایتھلیٹس کی ذمہ داری قبول کرنے سے کیوں انکار کیا؟

کابل میں ایک دکاندار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ چہرے ڈھناپنے کے بعد ڈسپلے پر لگائے گئے خواتین کے پتلے دیکھنے میں برے لگتے ہیں لیکن اس سے کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

افغانستان میں خواتین کو شوخ رنگوں کے ایسے اسٹائلش ملبوسات پہننے کی اجازت ہے جن کے گلے کھلے ہوں یا شانوں تک پھیلے ہوں لیکن قوانین کے مطابق خواتین ایسے ملبوسات صرف اپنے گھروں کے اندر یا شادی بیاہ کی تقریبات میں خواتین کی مخصوص کردہ محفلوں میں پہن سکتی ہیں۔

افغان دکانداروں کا کہنا ہے کہ ایسے لباس صرف نجی طور پر پہننے یا شادی اور منگنی کی ایسی تقریبات میں پہننے کے لیے خریدے جاتے ہیں جن میں خواتین اور مردوں کے بیٹھنے کے الگ انتظامات کیے گئے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان حکومت کے خواتین مخالف 80 حکم نامے جاری؟

تاہم شاپنگ سینٹرز پر ایسے ملبوسات جب بے جان پتلوں کو پہنائے جاتے ہیں تو ان پتلوں کے چہروں کو پلاسٹک شیٹ سے یا کالے رنگ کے بیگ میں لپیٹ جاتا ہے۔

کابل میں دیگر دکانوں پر کسٹمرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے روایتی افغان روایتی عروسی ملبوسات کی بھی ایسے ہی نمائش کی جاتی ہے، ان لہنگوں میں پورا جسم چھپ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود پتلوں کے چہروں کو ڈھانپنے کے احکامات ہیں۔

2021 میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد طالبان حکومت نے خواتین کو عوامی مقامات پر مکمل پردہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کابل کے شاپنگ ڈسٹرکٹ میں کام کرنے والی خواتین عبایا پہنتی ہیں اور اپنے چہروں کو میڈیکل ماسک سے ڈھانپے رکھتی ہیں۔

جنوری 2022ء میں افغانستان میں انسانی چہروں کی تصویرکشی پر پابندی کے نفاذ کے بعد ہرات میں مذہبی پولیس نے پتلوں کے سروں کو کاٹ دیا تھا، پتلوں کے چہروں کو ڈھانپنے سے متعلق احکامات پر عملدرآمد کے لیے وزارت امربالمعروف و نہی عن المنکر کی ٹیمیں اب وقتاً فوقتاً کابل کے اسٹورز کا دورہ کرتی ہیں۔

ایک دکاندار کا کہنا ہے کہ طالبان 1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دور حکومت میں زیادہ سخت تھے، پہلے کی نسبت اب وہ کافی حد تک نرم ہوچکے ہیں لیکن کسٹمرز سر کٹے پتلے یا ان کے ڈھکے ہوئے چہروں کو دیکھ کر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت کا خواتین کی تعلیم پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ

ایک اور دکاندار نے کہا کہ افغان عوام کے لیے یہ مسئلہ اتنا اہم نہیں، ملک میں اس سے بھی زیادہ اہم مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔ دکاندار نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کا اشارہ یقیناً خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں پر حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی جانب تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp