وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کابینہ میں کافی عرصے سے اختلافات کی خبریں سامنے آرہی ہیں، لیکن کچھ دن پہلے ہی اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چند وزرا اور رہنماؤں نے عمران خان سے ملاقات کی ہے اور خیبرپختونخوا حکومت سے متعلق شکایات کے انبار لگا دیے ہیں۔
حالات سے باخبر پارٹی ذرائع نے بتایا کہ کچھ ممبران اور رہنماؤں نے چند دن قبل عمران خان سے ہونے والی ملاقات میں تمام معملات کو کھل کر ان کے کے سامنے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہی نہیں ہے، اورعلی امین کرپشن کو روکنے کے لیے اقدامات بھی نہیں اٹھا رہے۔
علی امین حکومت کے خلاف شکایات کیا ہیں؟
پارٹی کے یوتھ ونگ سے وابستہ ایک عہدہ دار نے بتایا کہ کابینہ میں اختلافات تب سامنے آئے جب علی امین کابینہ اراکین کے ساتھ کور کمانڈر ہاؤس گئے تھے، جس پر کچھ سینئر اراکین نے اعتراض بھی کیا، اور کچھ اہم رہنما ان سے ناراض بھی ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کابینہ کے ساتھ کورکمانڈر ہاؤس کیوں گئے تھے؟ ترجمان نے بتادیا
عہدیدار کے مطابق گورننس اور سول و پولیس افسران کے تبادلے کے حوالے سے بھی پارٹی کو شدید تحفظات ہیں، جو پارٹی میٹنگز میں کھل کر رہے ہیں، اور ایسا لگ رہا ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہی نہیں ہے۔
ان کے مطابق علی امین صوبے میں کرپشن کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھا رہے یا مبینہ طور پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ سرکاری افسران کی من مانیاں ہیں جبکہ وزرا بھی ورکرز کو وقت نہیں دے رہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ عمران خان سے جیل میں صرف چند رہنماؤں کی ملاقات ہوتی ہے جبکہ اکثر کو اجازت نہیں ملتی۔ انہوں نے بتایا کہ جیل میں عمران خان تک اس بار شکایات پہنچی ہیں۔ جو صوبائی کابینہ کے کچھ اراکین حالیہ ملاقات میں ان کے سامنے رکھ کر آئے تھے۔
نظریاتی ورکرز دلبرداشتہ ہیں
انہوں نے بتایا کہ کابینہ ممبران کے خلاف کرپشن اور ناقص کارکردگی کی شکایات بھی ہوئی ہیں جبکہ 9مئی کے بعد کارکنان اب بھی مشکلات سے دوچار ہیں، حکومت کچھ بھی نہیں کررہی ہے۔
’پارٹی میں علی امین حکومت کو نامعلوم لوگوں کی حکومت کہتے ہیں اور نظریاتی ورکرز بھی اب دلبرداشتہ ہوگئے ہیں‘۔
ذرائع کے مطابق کابینہ ممبران کو ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز پر بھی تحفظات ہیں اور انہیں فنڈز نہیں دیے جا رہے یا ان کے حلقے کے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔
یہ پڑھیں: اعلان کرتا ہوں، صوبے میں کوئی آپریشن نہیں ہونے دوں گا، علی امین گنڈا پور
کچھ ممبران و رہنماؤں نے علی امین کے بھائی جو رہنما قومی اسمبلی ہیں ان کے خلاف بھی شکایت کی جو مبینہ طور پر انتظامی امور اور دیگر معاملات میں بے جا مداخلت کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق 35 سے زائد ایم پی اے اور ایم این ایز نے باقاعدہ طور پر اپنے تحفظات سے عمران خان اور پارٹی کو آگاہ کردیا ہے، جنہیں گورننس اور مبینہ بدعنوانی پر تحفظات ہیں، جبکہ وزرا محکموں میں علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین کی مداخلت پربھی نالاں ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کچھ ایم این ایز ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی اب تک ناراض ہیں اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جو اس وقت روپوش تھے۔
سیکریٹری کے تبادلے پر عمران خان کو شکایت
ذرائع نے بتایا کہ کچھ اراکین نے بس ہونے اور بات نہ سننے کی شکایت بھی عمران خان کو کی، ایک وزیر نے عمران خان کو شکایت کی کہ ان کے محکمے کا سیکریٹری ان کی بات نہیں مان رہا اور افسر کا تبادلہ بھی نہیں کیا جا رہا، سچ بولنے والوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔
ممبران وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سے خوش نہیں
ذرائع کا بتانا ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کچھ کابینہ اراکین کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں اور کارکردگی بہتر کرنے کے لیے وقت دیا ہے۔ 3 سے 4 وزرا کے خلاف وزیر اعلیٰ کو کرپشن اور دیگر انتظامی امور میں بے جا مداخلت کی شکایات ہیں۔ جس کی بنا وہ کابینہ میں تبدیلی کرکے کچھ سینئیر رہنماؤں کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اداروں سے درخواست ہے کہ نیوٹرل ہوجائیں، علی امین گنڈاپور
ذرائع نے مزید بتایا کہ حتمی لسٹ عمران خان کے حوالے کی گئی ہے، لیکن علی امین گنڈاپور سینٹ الیکشن کا انتظار کررہے ہیں جس کی وجہ سے کابینہ میں ردوبدل تاخیر کا شکار ہے۔
عمران خان کی ہدایت پر گڈ گورنس کمیٹی قائم
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کو علی امین نے کچھ کابینہ ممبران اور دیگر رہنماؤں کے خلاف شکایت کی جبکہ کچھ کابینہ ممبران اور رہنماؤں نے کابینہ اور علی امین کے خلاف شکایات کیں۔ عمران خان نے شکایات کے ازالے کے لیے گڈ گورنس کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ گوڈ گورنس کمیٹی میں ایم این اے جنید اکبر، صوبائی وزیر شکیل خان اور مصدق عباسی کو شامل کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، جبکہ کمیٹی میں سے جنید اکبر اور شکیل خان کو شامل نہیں کیا گیا، جبکہ قاضی انور اور شاہ فرمان کو شامل کیا گیا ہے۔
کمیٹی نے سب سے پہلے صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو شکیل خان کو طلب کر رکھا ہے، جن کے محکمے کے خلاف کمیٹی کے مطابق زیادہ شکایات موصول ہوئیں ہیں۔ جبکہ زرائع نے بتایا کہ شکیل خان موجودہ کابینہ سے خوش نہیں ہیں اور عمران خان کو سب اے ہہلے شکایت کرنے والے بھی یہی ہیں۔
کابینہ میں سخت اختلافات اور گروپ بندی ہے
علی اکبر پشاور میں پرائیوٹ نیوز چینل کے بیور چیف ہیں اور سینئر تجزیہ کار بھی ہیں، جو سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ کابینہ قلیل وقت میں ہی اختلافات اور گروپ بندی کا شکار ہے۔ کابینہ میں شدید اختلافات ہیں اور کھل کر سامنے آبھی چکے ہیں۔ اختلافات میں مبینہ بدعنوانی، خراب گورنس، بے جا مداخلت اور وزرا کو وقت نہ دینا شامل ہیں۔
اس کو پڑھیں: فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کیوں نہ کی؟ پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ علی امین گنڈاپور پر پھٹ پڑے
علی اکبر نے بتایا کہ جو گروپ بندی سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کے دور میں تھی وہ اب بھی ہے لیکن کچھ چہرے بدل گئے ہیں۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ شکیل خان اور کچھ اور ممبران کو تحفظات ہیں، جو انہوں نے کھل کر عمران خان کے سامنے رکھے ہیں اور ان کی باتوں پر گورنس کمیٹی بھی بن گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ کرپشن ہو رہی ہے۔
علی اکبر نے بتایا کہ ناراض اراکین کا موقف ہے کہ وزیرا علیٰ کے بھائی فیصل امین بے جا مداخلت کررہے ہیں اور علی امین گنڈاپور وزرا اور ممبران کو وقت نہیں دے رہے۔
کابینہ میں کوئی اختلافات نہیں، ترجمان خیبر پختونخوا حکومت
ترجمان و وزیر اعلیٰ کے مشیر بیرسٹر سیف اسلام آباد میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے ان سے بات نہیں ہوسکی۔ تاہم، انہوں نے اپنے ترجمان کے ذریعے موقف دیا کہ کابینہ میں اختلافات کے خبریں غلط ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ میں کوئی اختلافات نہیں ہیں، کابینہ میں اختلافات کی خبریں مخالفین کی خواہش ہوسکتی ہے مگر حقیقت نہیں۔
’وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تمام کابینہ اراکین ترقی کے سفر میں وزیراعلیٰ کے ہمراہ ہیں‘۔
سرکاری افسران کے تبادلوں کے حوالے سے درج شکایات پر ترجمان نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ عمران خان کو کس وزیر نے شکایت کی کچھ پتا نہیں، صوبے میں تمام معاملات رولز ریگولیشن کے مطابق چل رہے ہیں۔