’یہ وہی جنرل فیض ہیں جو آرمی چیف بننا چاہتے تھے، مگر نصیب میں کچھ اور لکھا ہوا تھا‘

منگل 13 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاک فوج کی جانب سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے جس نے ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ اتحادی جماعتوں کی جانب سے فیض حمید کے کورٹ مارشل کا خیر مقدم کیا جارہا ہے اور اسے بالکل درست فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد سے جہاں فوج میں احتسابی عمل کو سراہا جارہا ہے وہیں سیاسی و سماجی حلقوں میں فوجی افسران کے سیاسی کردار پر بھی بحث ہورہی ہے۔

صحافی کامران خان نے کہا کہ فیض حمید کو نہ صرف کورٹ مارشل کا سامنا ہے بلکہ وہ ممکنہ طور پر اپنے رینک، حاصل کردہ تمام مراعات جن میں پینشن اور پلاٹس وغیرہ شامل ہیں ان سے محروم ہوسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر ایک طویل قید ابھی ن کی منتظرہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ وہی جنرل فیض ہیں جو سال 2021 میں اپنے آپ کو آرمی چیف بنوانے کی بساط بچھا چکے تھے مگر نصیب میں کچھ اور لکھا ہوا تھا۔

صحافی و اینکر پرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ جنرل فیض کی گرفتاری کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا کیونکہ وہ تحریک انصاف کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتے تھے اور اپنے ذاتی انتقام کے لیے ایک پارٹی کو استعمال کررہے تھے لیکن تحریک انصاف ان سے ڈکٹیشن نہیں لے رہی تھی۔

صحافی ابصار عالم کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بھی جنزل فیض حمید کے اس کرپشن اسکینڈل سے گہرا تعلق تھا اور انہوں نے خلاف آئین اور قانون اپنے چیمبر میں کیس سُنا تھا جبکہ قاضی فائز عیسی نے کھلی عدالت میں کیس سن کر اسے منطقی انجام تک پہنچایا۔

ایک ایکس صارف نے مولانا فضل الرحمان کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے تمام جماعتوں کو بلا کر کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد لانی ہے، صارف نے سوال کیا کہ جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل کب کیا جائے گا؟

مطیع اللہ جان نے جنرل فیض کی گرفتاری پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض کی گرفتاری سیاسی مصلحت کے تحت ہے، اسٹیبلشمنٹ کے پاس آپشن کم رہ گئے تھے اس لیے عمران خان کو قابو کرنے کا یہی طریقہ رہ گیا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید کو گرفتار کرلیا جائے۔

صحافی امیر عباس نے سماجی رابطوں کی سائٹ ایکس پر جنرل فیض کی گرفتاری کے عمل کو سراہتے ہوئے کہا کہ چاہے عمران خان کو سبق سکھانے کے لیے ہی سہی لیکن کوئی سابق ڈی جی آئی ایس آئی انجام سے دوچار ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ آئی ایس آئی جیسے طاقتور ترین اور غیر مرئی استطاعت رکھنے والے ادارے سے وابستہ افراد اپنی طاقت کو کن کن جرائم کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنرل باجوہ بھی جاتے جاتے یہ اعتراف کر گئے تھے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے اور وہ مداخلت یقیناً خفیہ ادارے کے ذریعے سے ہی کی جاتی تھی نہ کہ سرحدوں کی حفاظت اور دہشتگردوں سے لڑنے والے عظیم جان نثاروں کے ذریعے۔

واضح رہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی، فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں۔

خیال رہے کہ 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور بطور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پی ٹی آئی اور اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp