الیکشن التوا کیس کی سماعت مکمل: فیصلہ محفوظ ، آج سنایا جائے گا

پیر 3 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، آج سنایا جائے گا


حکومت اور سیاسی جماعتوں سے کہیں اب بھی مذاکرات کے لیے وقت ہے: چیف جسٹس

علی ظفر نے کہا کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ بدل سکتا ہے؟ میری نظر میں الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر اقدامات نہیں کرسکتا۔ بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سارا ملبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالا ہے۔

علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وسائل مل جائیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں۔ سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہو سکیں۔ وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہو سکیں۔ انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا۔ عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔ حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی۔ ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے۔ ماضی میں حالات مختلف تھے۔

چیف جسٹس نے کہا ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا عرفان قادر کی باتوں سے لگا کہ حق میں فیصلہ دیں گے تو کہا جائے گا کہ بینچ اپنا تھا۔ اٹارنی جنرل صاحب حکومت اور سیاسی جماعتوں سے کہیں کہ اب بھی مذاکرات کے لیے وقت ہے۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا ۔


الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا: علی ظفر

کامران مرتضی نے عدالت کو بتایا کہ میں گورنر کا بھی وکیل تھا سیاسی جماعت کا بھی وکیل ہوں۔ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔

اظہر صدیق نے کہا ’کہا گیا لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں مقدمات زیر التوا ہیں۔ کسی ہائیکورٹ میں مقدمہ زیر التوا نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا سیکریٹری دفاع دستاویزات کب تک دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آج کسی بھی وقت عدالت کو دستاویزات دے دیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا گورنر کے پی کے کے وکیل پیروی سے معذرت کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کے پی کے کا ذکر نہیں ہے۔

علی ظفر کا جواب الجواب شروع ہوا تو علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پر کسی نے بات نہیں۔ الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا کہ اسے الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار کہاں سے ملا۔ الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔

علی ظفر کا کہنا تھا الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں آرٹیکل 218/3 کا حوالہ دیا۔ آرٹیکل 218/3 الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے۔


میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں؟: اکرم شیخ

وکیل مسلم لیگ ن اکرم شیخ نے کہا عدالت کی معاونت کے لیے پیش ہو رہے ہیں۔ کوئی پارٹی مجھے غیر قانونی کام کرنے کا کہے تو کیا میرا اپنا دماغ نہیں کہ فیصلہ کر سکوں۔ عدالت کا بیحد احترام کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا شیخ صاحب آپ کے ساتھ کامران مرتضیٰ اور فاروق نائیک کا احترام کرتے ہیں۔ حکومت میں شامل جماعتوں نے 3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔ا ٓپ ذاتی حیثیت میں آئے یا سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے۔ ن لیگ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اعلامیہ عدالتی عملے نے نکال کر دیا ہے۔

اکرم شیخ نے کہا میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں؟ ن لیگ سے کوئی فیس نہیں لی۔ عدالت نے کبھی مجھے مایوس واپس نہیں بھیجا۔ خود کو مزید شرمندہ نہیں کرسکتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے۔


بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جا سکتا یہ قانون کا اصول ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جوڈیشل ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجاز الاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے؟ اس پر عرفان قادر نے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن سے معذرت کی۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے دو ججز کے نوٹ کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جا سکتا یہ قانون کا اصول ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ 3 ججز اٹھ کر جاتے تھے اور 2 ججز واپس آتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔

عرفان قادر نے کہا آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے۔ ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا میں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا ماحول پورے ملک کی طرح عدالت کے اندر اور باہر خراب ہے۔ ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی۔ یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا آپ کے دلائل سے محظوظ ہوئے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا اب میں دلائل دینا چاہتا ہوں۔ پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟


مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا: عرفان قادر

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی۔ عرفان قادر نے کیس سے متعلق نکات اُٹھائے ہیں۔آپ نے ایک اہم نقطہ اٹھایا ہے جو میں دوبارہ نہیں اٹھاؤں گا۔

کبھی کبھی تعریف کر دیا کریں، عرفان قادر کا چیف جسٹس سے مکالمہ ۔ کہا سوشل میڈیا پر آپ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں۔آپ سوشل میڈیا کی بات کرکے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

عرفان قادر نے کہا آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں۔6  ججز کی رائے کے بعد 3 رکنی بینچ سماعت نہیں کر سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی تحلیل درست تھی یا نہیں۔ وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ کی آڈیو لیک آئی جو فواد چوہدری سے متعلق تھی۔

پرویز الہیٰ نے کہا کہ فواد چوہدری پہلے گرفتار ہوتے تو اسمبلی نہ ٹوٹتی۔ پنجاب اسمبلی نہ وزیراعلیٰ نے توڑی نہ گورنر نے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا۔

چیف جسٹس نے جواب دیا میں نے جو سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔ عرفان قادر نے کہا جسٹس اعجاز الاحسن کا بہت مداح ہوں۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا مداحی پر آپ کا مشکور ہوں۔


جسٹس فائز عیسی سینئر جج ہیں ان کے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا: عرفان قادر

وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر اپنے دلائل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں۔ خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دیدی ہے۔ پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں۔ صدر کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے۔ صدر ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کے لیے ہے۔ ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا ہے۔ چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں اندرونی تنازع کو حل کیا جائے۔

عرفان قادر نے مزید کہا کہ 184/3 تنازع حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے۔ جسٹس فائز عیسی سینئر جج ہیں ان کے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے۔ ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گے۔ جسٹس فائز عیسیٰ سے ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ کیے ہیں۔ رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔


چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے: عرفان قادر

وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے اپنے دلائل میں کہا کہ 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں۔ 3 ججز نے حکم جاری کیا۔ یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا۔ عدالت اس تنازع کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ فیصلے کے تناسب کا تنازع ججز کا اندرونی معاملہ نہیں۔ درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے۔ سرکولر سے عدالتی فیصلے کا اثر زائل نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے۔ ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔ قومی مفاد آئین اور قانون پر عمل درآمد میں ہے۔

عرفان قادر نے کہا آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے۔ ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں۔ ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی۔

عرفان قادر کا کہنا تھا قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے۔ صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں۔


الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہیئے: عرفان قادر

سپریم کورٹ میں وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہو گئی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دینا شروع کر دیے۔ کہا کوشش ہے اپنی بات مختصر رکھوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا آپ کتنی دیر دلائل دیں گے۔ عرفان قادر نے کہا میں کوشش کروں گا 30 منٹ میں تک اپنی بات مکمل کرلوں۔

عرفان قادر نے کہا اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں۔ بینچ سے جانبداری منسوب کی جا رہی ہے۔ پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کر چکی ہے۔

عرفان قادر نے مزید کہا کہ فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے۔ پتا پتا بوٹا بوٹا باغ تو سارا جانے ہے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ کہا عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے۔ عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا۔ ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہیئے۔ فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہیئے۔


چیف جسٹس آئین کی بالادستی کے لیے سماعت کر رہے ہیں: عثمان ڈار

عثمان ڈار نے کہا ہے کہ گزشتہ روز تیرہ جماعتوں نے اجلاس کیا اور بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ آج جب عدالت نے پوچھا تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو بینچ پر اعتماد ہے۔ ان کا کہنا تھا تو پھر میڈیا کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عثمان ڈار کا کہنا تھا چیف جسٹس صاحب آئین کی بالادستی کے لیے سماعت کر رہے ہیں۔ یہ وزراء جب بھی سپریم کورٹ آتے ہیں ان کی کانپیں ٹانگ رہی ہوتی ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے تھے اج اسی ووٹر سے خوف زدہ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والے آج الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ جیسے فیصلہ آئے گا یہ جوتیاں چھوڑ کر یہاں سے بھاگیں گے۔ عمران خان نے اگر اسمبلیاں تحلیل کیں تو آئین میں راستہ موجود تھا۔ یہ کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل کرے ہم جنرل الیکشن کی طرف جائیں گے بھڑکیں مار رہے تھے۔


سماعت میں 2:30 بجے تک وقفہ کر دیا گیا

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر روسٹرم پر آ گئے ۔ کہا پہلے 5 ماہ میں 5700 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے پر مشتمل ہے۔ آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے۔ بیس ارب روپے 0.02 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

اسد عمر نے کہا خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کا 4.97 فیصد ہے۔ 20 ارب روپے کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ریونیو بڑھانے میں زیادہ وقت لگے گا۔ کس شعبے سے اخراجات کم کیے جا سکتے ہیں۔

اسد عمر نے کہا ترقیاتی اخراجات 7 سو ارب روپے ہیں۔ ابھی تک 4 سو 50 ارب روپے خرچ ہونا باقی ہیں۔ حکومت نے 8 ماہ میں صرف 2 سو ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ ترقیاتی اسکیموں کے لیے حکومت نے مزید 8 ارب روپے ترقیاتی اخراجات میں شامل کیے ہیں۔

اسد عمر نے مزید کہا کیسے ممکن ہے 7 سو ارب روپے کے بجٹ سے اکیس ارب روپے نہ نکالے جا سکتے ہوں۔ آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا مذاق کوئی نہیں ہو سکتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا الیکشن پہلے ہو جائیں تو پورا 4 سو 50 ارب بچ سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ کسی سے بات نہیں کریں گے۔ عدالت فیصلہ کرے۔ 4 سو 50 ارب روپے خرچ نہ ہونے کیوجہ اخراجات میں کمی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے تو غیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔ ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا آپریشنل اخراجات اور تنخواہیں ہی غیر ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا آٸینی تقاضا پورا کرنے کے لیے آرٹیکل 254ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا آٸندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔

عرفان قادر ڈائس پر آگئے ۔ کہا اگر عدالت ذہن بنا چکی ہے تو ہمیں بتا دیں۔ ہمارا موقف سن لیں پھر سیکریٹری سے بات کرلیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کو کس نے کہا ہم نے طے کر لیا ہے۔ عرفان قادر

نے کہا عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا سوموٹو نہیں لیں گے آپ درخواست دیں۔

کیس کی سماعت میں 2:30 بجے تک وقفہ کر دیا گیا


ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں نہیں شروع کرتے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا جن علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں۔ الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے۔ جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں۔ جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔

عدالت نے سیکریٹری دفاع سے دو گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔ سیکریٹری دفاع نے کل تک مہلت مانگ لی اس پر  عدالت نے سیکریٹری دفاع کو کل تک کی مہلت دیدی۔

سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔ سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہو سکے۔ ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارہ کم کیا جا رہا ہوگا۔ آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کرکے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتا ہے۔ ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا۔ 170 ارب روپے جمع کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا 20 ارب روپے دینے سے بجٹ پر کتنے فیصد فرق پڑے گا۔ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔ اندازہ ہے کہ بجٹ خسارہ ابھی موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو خسارہ 157 ارب روپے تھا۔ خسارہ 177 ارب ہو جاتا تو کیا ہو جاتا؟ ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی؟  ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے۔ قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی۔ 5 فیصد تنخواہ 3 اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے۔کون سا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا؟


الیکشن ڈیوٹی کے لیے جنگجو اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا ایک فیصلہ 3 رکنی اکثریت نے دیا ایک 2 رکنی اقلیت نے دیا۔ بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے۔ سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہو سکتا ہے۔ سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے۔کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا ہے۔ نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے کہا آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا صورت حال سب کے لیے ہی مشکل ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔  چیف جسٹس نے کہا اصل مسئلہ سیکیورٹی کا ہے۔ دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے۔ بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ سٹیشنز محفوظ ہیں۔ فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کے لیے نہیں ہوتا۔ عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو۔ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے۔ کوئی آکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں وجوہات بتائی ہیں۔

سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا حساس معلومات نہیں لیں گے مجموعی صورتحال بتا دیں۔ فی الحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ کے پی کے میں ابھی تاریخ ہی نہیں دی گئی۔کیا پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں۔ سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں۔ کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔

عدالت نے علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا اور پوچھا کہ ان چیمبر سماعت پر آپکا کیا موقف ہے؟ علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں۔ سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں۔ سیکیورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ آٹھ اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو جنگجو اہلکار درکار ہیں۔

اس پر علی ظفر نے کہا ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سیکریٹری دفاع نے کہا ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔ ریزور فورس بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا سر بمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں۔ جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے۔ کوئی سوال ہوا تو اسکا جواب آپ سے لیں گے۔ آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا حساس معاملات کو سمجھتے ہیں پبلک نہیں ہونے چاہئیں۔ نیشنل سیکورٹی اہلکاروں اور عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

علی ظفر نے کہا حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا۔ اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔ سیکریٹری دفاع نے کہا  ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے۔ الیکشن ڈیوٹی کے لیے جنگجو اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا۔


زیادہ سے زیادہ لارجر بینچ کی استدعا ہو سکتی ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے۔ کہا جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں۔ آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔ کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے۔ سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔ تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے۔آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہو سکتی ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا لارجر بینچ کی استدعا آگے جا کر کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضا کارانہ الگ ہوا۔ 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا۔

چیف جسٹس نے کہا 27  فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے۔ فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ  نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا گزشتہ 3 دن میں سینئیر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔ لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے۔3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔


عوامی، وکلا اور سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر فل کورٹ بنانا ہوگا: قمر زمان کائرہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ آج ایک اہم کیس ہے جو ملک کے حال اور مستقبل پر اپنے اثرات چھوڑے گا۔ پاکستان آج معاشی بحران کے ساتھ ساتھ آئینی اور عدالتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا ملک اس وقت ایک ہیجان کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسائل کا حل نکالیں۔ ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ عدالت ہیجان کے ماحول کا شکار نہیں ہو گی۔

قمر زمان کائرہ نے کہا عدالت کو ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دینا چاہیے۔ اس عمل سے نکل کر ایک پائیدار عمل کی طرف جانا چاہیئے۔ ہرطرف اور ہر وقت کوشش ہوتی ہے مذاکرات سے بات کا حل نکالیں۔

انہوں نے کہا کہ عوامی، وکلا، سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر فل کورٹ بنانا ہوگا۔ اس میں کسی کی انا کی کوئی بات نہیں ہے، مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے۔ مذاکرات اور مشاورت کا عمل جاری رہنا چاہئیے۔


تین رکنی بینچ کی قانونی حیثیت نہیں: عطا تارڑ

مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے کہا ہے کہ آج تحریری طور پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں وہ بڑے سنجیدہ اور سنگین نوعیت کے ہیں۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عطا تارڑ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا پہلا بینچ 7 رکنی تھا جس نے سو موٹو کیس میں الیکشن کرانے کے آرڈر جاری کیے تھے وہ فیصلہ 3، 4 سے آ چکا ہے۔ جسٹس منظور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے آرڈرز ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ہم 3،4 سے پٹیشنز کو رد کرتے ہیں۔

لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ جب 3،4 سے از خود نوٹس کیس ختم ہو چکا تو دوبارہ جو درخواست آئی ہے اس کی گنجائش نہیں بنتی۔ جو بینچ کیس سن رہا ہے اس کی قانونی حیثیت اس لیے نہیں ہے کہ 3،4  کے فیصلے سے اس کیس کا فیصلہ پہلے ہی آ چکا ہے۔ اس لیے اس کیس کی سماعت اب مزید آگے نہیں جا سکتی۔ یہی درخواست آج وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے۔

عطاتارڑ نے کہا کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب اس کیس کو عدالت نے لیا تو 7 رکنی بینچ سے پہلے 9 رکنی بینچ تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے رضا کارانہ طور پر کیس سننے سے معذرت کی تھی اس لیے انہیں کیس سننے سے معذرت کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے تیسرا اعتراض اٹھایا ہے کہ 29 مارچ کا قاضی فائز عیسی کا جو آرڈر ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184-3 کے تحت جو بھی سماعت کرنی ہے اس کے رولز فریم ہونے چاہیے۔ از خود نوٹس کب کہاں لیا جا سکتا ہے اس کے رولز فریم ہونے چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا حکم آ چکا جو ایک قانونی حکم ہے۔


ازخود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے: چیف جسٹس

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا 184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں۔ ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے۔ 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت مؤخر کرنے سے۔ فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے۔ بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب نے کہا کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے۔ موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے۔ رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے مؤخر کریں؟ اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ 2 اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں۔ اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے۔ ازخود نوٹس کے لیے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا۔ ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔


عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے؟ حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بینچ سے الگ ہو جائیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے۔ سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہو سکتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا۔ فیصلے کی انتظامی ہدایات دی گئی تھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے۔ سرکلر میں لکھا ہے کہ 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے۔ جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔


چار آراء ہیں کہ درخواستیں خارج ہوئی ہیں: اٹارنی جنرل منصور عثمان

اٹارنی جنرل نے کہا 2 ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں۔ بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہو سکتی۔ 5 رکنی بینچ نے 2 دن کیس سنا۔ کسی نے کہا 2 ارکان موجود نہیں۔ کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ 7 رکنی ہے؟

جسٹس منیب اختر  نے کہا پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کر دے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟ چیف جسٹس نے کہا 2 ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی۔ بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا 4 آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا آپ کا نقطہ سمجھ گئے اگلے نقطے پر آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں۔ ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔


عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے ججز کی مشاورت نہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے۔ ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں۔ عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا۔ فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا 5 رکنی بینچ کا۔

چیف جسٹس نے کہا تفصیلی اختلافی نوٹ میں بینچ کے از سر نو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا نوٹ کے مطابق بینچ کی از سر نو تشکیل انتظامی اقدام تھا۔ نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا نوٹ کے مطابق 4 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا۔ بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4 ججز کو بینچ سے نکالا گیا۔ 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے۔کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جا سکتا۔ عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ازسرنو تشکیل میں تمام 5 نئے ججز آ جاتے تو کیا ہوتا؟ کیا نیا بینچ پرانے 2 ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں۔


کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟ جسٹس منیب اختر

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا۔21  فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا۔ 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔ 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا ایک جج نے درخواست خارج کی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27  فروری کو 9 رکنی بینچ نے از سر نو تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔

اس دوران عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کے کان میں لقمہ دیا تو جسٹس منیب اختر نے کہا کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟ عرفان قادر نے جواب دیا 15  سیکنڈز کا معاملہ ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کیا چیف جسٹس کوئی بھی 5 ججز شامل نہیں کر سکتے تھے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا آپ کی رائے سے اتفاقی کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے۔ جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں 5 رکنی بینچ بنا ہی نہیں تھا۔


قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا: چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے کہا درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے۔ صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔ فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا۔ گورنر کے پی کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔ 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گیے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے۔ جس حکم نامے کا ذکر کر ر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے۔ عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا۔


ہزاروں وکلا کا عدالت آنا ضروری نہیں: چیف جسٹس کا فواد چوہدری سے مکالمہ

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی ریڈ زون کھلوانے کی استدعا مسترد کر دی۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ریڈ زون کے راستے کھلوائے جائیں۔

فوادچوہدری نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ریڈ زون کے راستے سیل کر دیے گئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم غزہ میں آ گئے ہیں۔ وکلاء کو بھی آنے سے روکا جا رہا ہے۔ ریڈ زون کے داخلی راستے پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے باہر وکلا بینچ سے اظہار یکجہتی کے لیے موجود ہیں

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فواد چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ اپنے سیکیورٹی انتظامات کر رہی ہیں۔ ہم کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ ہزاروں وکلاء کا آںا ضروری نہیں۔ وکلاء کو آپ نے کال دی ہے تو ان سے بات کریں۔

فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ہم نے کال نہیں دی۔ وکلاء کا کنونشن ہے اس لیے بھی انہیں روکا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا اس سب سے کیا لینا دینا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے فواد چوہدری سے کہا کہ  از خود نوٹس پر پہلے ہی مسائل بنے ہوئے ہیں۔ آپ پھر سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی احاطے میں معمول کی شناخت کے عمل کے بعد وکلاء آ سکتے ہیں۔


ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں: جسٹس منیب اختر

سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس کا ان سے مکالمہ ہوا اور چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے پوچھا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا جی ایسا ہی ہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو بائیکاٹ کررہے تھے، جس پر فاروق نائیک نے وضاحت کی کہ ایسا تو کچھ نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں جو زباں اس میں استعمال کی گئی ہے۔

کامران مرتضیٰ نے کہا بینچ پر ہمارے تحفظات ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔

جسٹس منیب اختر  نے کہا گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں۔ ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں۔ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔ اکرم شیخ نے کہا وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے۔ اکرم شیخ نے جواب دیا وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی ۔ اٹارنی جنرل نے کہا حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، بائیکاٹ نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔


سب کی توجہ سپریم کورٹ پر ہے دیکھتے ہیں کیا فیصلہ آتا ہے: شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آج سب کی توجہ سپریم کورٹ پر ہے دیکھتے ہیں فیصلہ کیا آتا ہے۔ سپریم کورٹ پر حملہ اور وکلاء کی حاضری میں فرق ہے۔آئین اور عدلیہ کے دفاع کے لیے مجھے ٹاسک دیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کروں

رہنما تحریک انصاف شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان شاء اللہ یہ قانون دان ہیں پڑھے لکھے لوگ ہیں پر امن رہیں گے۔ حکومت کا بینچ پر عدم اعتماد آئین پر حملہ اور الیکشن سے فرار ہے۔ حکومت اگر بینچ کا بائیکاٹ کرتی ہے تو جمعہ کے روز اٹارنی جنرل نے دلائل کیوں دیے۔


ججز ایک ایک کرکے بینچ سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں: محسن شاہ نواز رانجھا

محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔ ججز ایک ایک کرکے بینچ سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔ گھر کے بڑوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا لاڈلے بچے کو 2018 میں نقل کروا کر پاس کروایا گیا۔ ایک فرد کے لیے پاکستانی قوم کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ جس شخص کو پانچ پانچ مقدمات میں ایک ساتھ ضمانتیں دی جائیں، عوام سوال کرتی ہے لاڈلا کون ہے۔


سپریم کورٹ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو سڑکوں پر آئیں گے: شیخ رشید

شیخ رشید نے کہا ہے کہ وکلا اور سارا ملک سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایک سال ہو گیا نواز شریف یہاں نہیں آ رہا سعودی عرب کا مہمان خانہ مانگ رہا ہے۔ اس کا بھائی وزیراعظم ہے اور وہ سعودی مہمان خانے کی بھیک مانگ رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید کا کہنا تھا یہ آئین اور قانون کی جنگ ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو سڑکوں پر آئیں گے۔ ادارے اور فوج پوری قوم کے ہیں فیصلہ اس بلڈنگ نے کرنا ہے۔ لوگوں کی ریڈ لائن عمران خان ہے میری بھی عمران خان ہے مگر یہ عمارت بھی ہے۔


قوم توقع کرتی ہے کہ آئین کی فتح ہو گی: فیصل جاوید

پی ٹی آئی رہنما فیصل جاوید نے کہا ہے کہ آج ایک اہم دن ہے۔ پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ پوری قوم عدلیہ کے ساتھ ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فیصل جاوید کا کہنا تھا ہم صرف چاہتے ہیں آئین پر عمل درآمد ہو۔ پوری قوم توقع کرتی ہے کہ آئین کی فتح ہو گی۔ خوش آئند بات ہے قوم جاگ گئی ہے۔ عوام میں جانے سے مسائل حل ہوں گے۔

فیصل جاوید نےکہا اس دلدل سے نکلنے کا کوئی حل نہیں سوائے کہ انتخابات ہوں۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں ہمیشہ کی طرح قانون پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ لوگوں کو گمراہ کرنا اب نہیں چلے گا۔


پوری قوم کی نظریں سیاسی جماعتوں پر ہیں: فاروق ایچ نائیک

فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ یہ کیس بہت بڑا ہے۔ چیف جسٹس سے کہیں گے ہمیں بھی سنا جائے۔ تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سب کو سنا جائے۔

فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پوری قوم کی نظریں سیاسی جماعتوں پر ہیں۔


چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر مقدمہ نہ سنیں: وفاق

وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع  کرا دیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کی جائے۔ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا۔ تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔

وفاقی حکومت نے مؤقف اپنایا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے۔ سپریم کورٹ کے   جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں۔ انہیں نکال کر باقی ججز پر مشمتل بینچ بنایا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں الیکشن کا کیس سننے سے  انکار کر چکے ہیں۔ پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین اکژیت سے دیا گیا۔ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر  فیصلہ دینے والے  بینچ کا حصہ تھے۔ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔


پی ٹی آئی کی انتخابات سے متعلق درخواست خارج کی جائے : حکومت

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی انتخابات سے متعلق درخواست خارج کرنے کی استدعا کر دی۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کر دی جس میں کہا گیا ہے کہ  جسٹس فائز عیسی کے فیصلے کے بعد سماعت جاری نہیں رکھی جا سکتی۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ بینچ پر بھی اعتراض کر دیا۔

عدالت نے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو طلب کر رکھا ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان میں صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن شامل ہیں۔ عدالت نے آج سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو طلب کررکھا ہے۔

جمعہ کے روز گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن التوا کیس کی سماعت میں حکومت کی طرف سے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی تھی تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر معاملات طے کر سکتی ہیں تو ہم کچھ  دنوں کے لیے سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے اردگرد سیکورٹی میں اضافہ

اسلام آباد پولیس نے آج سپریم کورٹ میں ہونے والی اہم سماعت کے موقع پر سیکورٹی بڑھا دی ہے۔ ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق پیر کے روز سپریم کورٹ میں وہی افراد داخل ہوسکیں گے جن کے مقدمات زیر سماعت ہوں گے یا جنہیں عدالت عظمیٰ کی انتظامیہ کی جانب سے خصوصی اجازت نامہ جاری ہوگا۔

حکومت کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار

حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلوں سے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا ہے، اخلاقی طور پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال اور ان کے دو رفقاء کو انتخابات التوا کیس سے دستبردار ہو کر اس معاملہ کو ختم کردینا چاہیے۔

نواز شریف کی طرف سے فل کورٹ کا مطالبہ

حکمران اتحاد کی طرف سے الیکشن التوا کیس کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے کہا تھا کہ انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنایا جائے کیوں کہ جب ہمیں بینچ ہی قبول نہیں تو فیصلہ کیسے قبول ہوگا۔ اس بینچ میں تو 2ججز وہ ہیں جنہوں نے میرے خلاف فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ میں تو کئی جج ہیں تو پھر ہر کیس میں یہی 3 جج کیوں آ جاتے ہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp