جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے!

جمعرات 22 اگست 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہا جاتا ہے کہ پاکستان تو جب سے وجود میں آیا ہے ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے مگر آج کل مہنگائی، بے روز گاری، بد امنی، سیاسی اُتھل پتھل اور غیر مستحکم معیشت کی وجہ سے عجیب و غریب بے چینی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں ارشد ندیم کی کامیابی نے پورے ملک کو جوش، ولولے اور خوشی کے ایک دھاگے میں پرو دیا۔

ارشد نے پیرس اولمپکس میں اپنے نیزے سے وہ جادو پھونکا جو سر چڑھ کے بولا۔ جیسے کوئی داستان گو کہانی سناتے ہوئے ہیرو کی بہادری کا قصہ بیان کرنے سے پہلے پورا ماحول بناتا ہے کہ بُرے ترین حالات میں بھی ادھر ہیرو پورے سبھا سے میدان میں اُترا، اُدھر سورج سوا نیزے پر تھا، ہیرو کا نیزہ پھینکنا تھا کہ میدان کا نقشہ بدل گیا۔

بالکُل اسی طرح ارشد ندیم کی ایک تھرو نے پیرس اولمپکس کا ریکارڈ بدل دیا۔

جب بھی ارشد کی کامیابی کا ذکر آتا، یا کوئی ویڈیو نظر سے گزرتی تو میرے جیسے کئی سخت جان لوگوں کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسو تیرنے لگتے ہیں۔ زمانے بیت گئے جب ہمارے ہاکی کے کھلاڑی ہر بار اولمپکس مقابلے میں گولڈ میڈل یوں لے آتے جیسے اس پر صرف ہمارا حق ہے۔

پھر آہستہ آہستہ بس قصے کہانیا ں رہ گئیں۔ سچی بات ہے اس بار بھی اہلِ وطن کو کوئی خاص امید نہیں تھی مگر ارشد نے ایسا کمال کر دکھایا کہ سارے پاکستانیوں کو خوشی سے نہال کر دیا۔

ارشد ندیم نے گولڈ جب کہ بھارت کے نیرج چوپڑہ نے سلور میڈل جیتا۔ ارشد اور نیرج کے خاندان کے مختلف افراد کے انٹرویوز بھی مختلف صحافیوں نے کیے۔

نیرج کی ماں نے کہا کہ نیرج سلور جیتا ہے تو وہ ہمارے لیے گولڈ جیسا ہے اور ارشد بھی اپنا ہی لڑکا ہے۔ ارشد کی والدہ نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہا رکیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں طرف دونوں ماؤں کے ایک جیسے بیان کو بہت کُھلے دل سے خوش آمدید کہا گیا۔ کسی نے تبصرہ کیا کہ دونوں مائیں گولڈ میڈل جیت گئیں۔

ارشد ویسے تو سکھیرا جٹ ہے۔ کاشت کار خاندانوں میں تقسیم در تقسیم کے بعد زیر کاشت رقبہ بعض زمین داروں کے پاس نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور اگر تھوڑی بہت زمین ہو بھی تو وہ کفالت کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ کاشت کاروں کو خاندان کی روٹی روزی کے لیے کوئی اور کام کاروبار ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

ارشد کے والد بھی راج مستری کا کام کرتے ہیں۔ سارا خاندان ویسا ہی ہے جیسے ہم سب دیہاتی ہوتے ہیں۔ والدین تو بہت ہی سادہ طبیعت ہیں۔ ارشد کے گولڈ میڈل جیتتے ہی پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس کے پرانے انٹرویوز، گھر اور گاؤں کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر چلنے لگیں۔

ان ویڈیوز سے ایک تاثر یہ بنا کہ ایک عام دیہاتی بغیر کسی حکومتی یا کھیلوں کے ادارے کی مدد کے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر آگیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اب انعامات کا اعلان کرکہ کریڈٹ لینا چاہ رہی ہیں، حالانکہ انہوں نے پہلے ارشد ندیم کے لیے کچھ نہیں کیا۔

ارشد کے گاؤں والے گھر میں اس کی ورزش کا وہ سامان بھی دکھایا گیا جو اس کے والد صاحب نے گھی کے خالی ڈبوں میں سیمنٹ بھر کر ویٹ لفٹنگ کے لیے تیار کیا تھا۔

اپنے گاؤں کی ایک ویڈیو میں محسن بھٹی کے ساتھ چلتے ہوئے ارشد بات کر رہے ہیں جس کا مفہوم کم و بیش یہ تھا کہ “یہ دیکھ لیں جہاں میں رہتا ہوں۔ دنیا میں دوسرے کھلاڑی دیکھیں ان کا لائف سٹائل کیا ہے؟مجھے بھی اگر گورنمنٹ بہتر سہولیات دے تو میں بھی ملک کا نام مزید روشن کر سکتا ہوں۔”

اس میں کوئی دو رائے نہیں، کھلاڑی کو کھیل کے لیے بہتر سہولیات اور ماحول ملے تو اس کی کارکردگی کا معیار بہت بہتر ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اگر ارشد کا پس منظر وہ نہ ہوتا جو ہے تو شاید آج وہ پیرس اولمپکس کا گولڈ میڈلسٹ نہ ہوتا۔ زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ منفرد کرنے کی لگن بھی بہت کچھ کرواتی ہے۔

پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد ارشد پر انعامات اور اعزازت کی بجا طور پر بارش ہوئی۔ انہوں نے جتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور جس قدر قوم کو خوشی دی ہے، اس پر انہیں جس قدر بھی انعامات دیے جائیں، کم ہیں۔ وہ بجا طور پر ہر قسم کے اعزاز و اکرام کے مستحق ہیں۔

ارشد ابھی وطن واپس نہیں پہنچے تھے تو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے ان کے لیے ایک کنال کے مکان اور تا حیات مفت یوٹیلٹی بلز دینے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ارشد کے والد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور انھوں نے پنجابی میں کہا کہ ”میں اپنی اوقات کو یاد کر کے رو رہا ہوں۔ میں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں کیا۔ محنت مزدوری کرکے بچوں کو پالا ہے اور ارشد کو یہاں تک پہنچایا ہے اور اب رب ہمیں عزت دے رہا ہے تو میری آنکھوں میں آنسو آرہے ہیں۔ ”

سینئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے ٹویٹ کیا اور وی لاگ میں بھی بتایا کہ عام تاثر کے برعکس ارشد کو صوبائی اور وفاقی حکومت نے ہر قسم کی تربیت اور علاج کے لیے ملک اور بیرونِ ملک سہولت فراہم کی۔

عمر چیمہ نے اپنے ٹویٹ میں وہ تفصیل بھی دی جس میں کھیلوں کے اداروں اور حکومت کی طرف سے مختلف اوقات میں ارشد کے لیے رقم جاری کی۔

ارشد خود کئی دفعہ کہہ چُکے ہیں کہ واپڈا نے انہیں گریڈ 18 میں نوکری دی ہے۔ وہ پیرس اولمپکس سے پہلے بھی ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کر چُکے ہیں جہاں وہ پانچویں نمبر پر رہے تھے۔

اس ساری بحث کے تناطر میں ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ان کے کسی قریبی شہر میں ان کا مکان دکھایا جا رہا ہے۔ مکان کے باہر ان کے نام کی تختی بھی لگی ہوئی ہے۔ میں نے وہ ویڈیو ایکس پر یہ لکھ کر شیئر کر دی کہ اس مکان کا تو ارشد نے کبھی نہیں بتایا یعنی اپنے کسی انٹرویو میں اس مکان کا تذکرہ نہیں کیا۔

یہ ٹویٹ اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حسبِ عادت مجھے بہت سے لوگوں نے بُرا بھلا بھی کہا۔ حالانکہ میں نے وہ بات اس بحث کے پس منظر میں کی تھی جس میں ارشد کو غریب دکھایا جا رہا تھا۔ بہرحال سبق یہ سیکھا کہ مجھے اس اندازے سے ٹویٹ نہیں کرنی چاہیے تھی کہ لوگوں کو علم ہے کہ میں کس تناظر میں بات کر رہا ہوں۔ مجھے الفاظ کے چناؤ میں مزید احتیا ط کرنی چاہیے تھی۔

غریب ہونا کوئی جُرم نہیں۔ بطور دیہاتی اور پاکستانی مجھے تو ارشد پر بے تحاشا فخر ہے کہ ایک چھوٹے سے دیہات سے نکل کر اس نے اپنا اور ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کیا ہے۔ دعا ہے کہ وہ مزید کامیابیاں اپنے اور ملک کے لیے حاصل کرے۔

بے شک ارشد ندیم ہم سب کا فخر ہے۔ وہ ایک جادو گر ہے اور اس کا جادو اس وقت سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ اس جادو کا یہ اثر بھی ہو گا کہ آئندہ نیزہ بازی کے بہت سے کھلاڑی پاکستان میں پیدا ہوں گے اور سرکاریں بھی کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں کی ترویج کی طرف دھیان دیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp