جرابوں سے آزادی

بدھ 21 اگست 2024
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پرانے وقتوں میں کسی فوج کو محاذ جنگ پر طویل جنگ لڑنا پڑی۔ سپلائی چین متاثر ہونے کے سبب پہلے خوراک کی قلت پیدا ہوئی، پھر وردیاں اور ضروری سامان بھی ناپید ہوگیا۔ باقی تو جیسے تیسے گزارا کر لیا مگر جب کئی مہینوں تک جرابیں تبدیل نہیں ہوئیں تو سپاہیوں نے شکایتیں شروع کر دیں۔ فوج کا جنرل جب بھی سپاہیوں میں آتا وہ بار بار نئی جرابوں کی فریاد کرتے۔

آخر ایک صبح جنرل نے یہ اعلان کیا کہ آج تمام سپاہی اپنی جرابیں تبدیل کریں گے۔ یہ سن کر وہ سبھی خوشی سے تالیاں پیٹنے لگے جس کے بعد جنرل نے دوسرا اعلان کیا کہ ہر سپاہی اپنی جرابیں ساتھ والے سے تبدیل کرے گا۔

کچھ ایسا ہی قصہ ہماری تاریخ کا بھی ہے جو ہمیں آزادی کے نام پر انگریز کی جرابیں اتار کر مقامی اشرافیہ کی بدبودار جرابیں پہنا دی گئیں۔ یعنی آزادی ملی مگر صرف انگریز کے کاسہ لیسوں کو۔ جو سہولتیں 47 سے پہلے انگریز کو یہاں حاصل تھیں وہ ان کے جانے کے بعد انہی کے خدمت گذاروں کو مکمل اعزاز کے ساتھ منتقل ہو گئیں۔ انگریز یہاں قتل کرتا تھا تو کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر کوئی ہندوستانی کسی گورے سے جھگڑ بھی لیتا تو سارا قانون حرکت میں آجاتا تھا۔

انگریز اور غیر ملکیوں کو تو خیر یہ سہولت آج بھی سفارتی استثنیٰ کے نام پر حاصل ہے۔ البتہ زیادہ مصیبت مقامی اشرافیہ نے پیدا کی ہے۔ کب آپ کسی نودولتیے کی گاڑی تلے کچلے جائیں یا کوئی وڈیرہ آپ کو گولیوں سے بھون ڈالے، کچھ معلوم نہیں۔ اصل خوش قسمتی تب ہونی ہے جب سوشل میڈیا پر آپ کی لاش وائرل ہو جائے اور جہاں پسماندگان نے کفن دفن کے لیے بھی دوڑ دھوپ کرنی تھی وہاں دیت کے نام پر انہیں عیاشی کے لیے لاکھوں یا کروڑوں روپے مل جائیں۔

گورے افسر یہاں لوٹ مار کے لیے آتے تھے اور اپنے اصل وطن واپس چلے جاتے تھے۔ اب جو آقا یہاں مسلط ہیں ان میں سے بہت سارے شیروانی اتار کر بھی یہ ملک نہیں چھوڑتے۔ کیونکہ جو آزادی انہیں یہاں میسر ہے وہ کسی دوسرے دیس میں کہاں ملنی ہے۔ کون سا ملک ہے جہاں کسی ڈاکو کے پروٹوکول کے لیے گھنٹوں ٹریفک روکی جاتی ہو۔ کون سا دیس ہے جہاں قاتل کو وکیل اور جج مل کر انصاف دیتے ہوں۔ کون سی ریاست ہے جو خود اپنے بچے غائب کر کے کھا جاتی ہو اور دشمن کے ریمنڈ ڈیوس اور ابھی نندن کو پروٹوکول کے ساتھ وطن واپس بھیجتی ہو۔ کون سا معاشرہ ہے جہاں زندگیاں لینے کا اختیار خدا کی بجائے طاقتور بندوں کے ہاتھ میں ہو۔

یہ سب تیسری دنیا کی آخری صف میں موجود اس کالونی کا قصہ ہے۔ جہاں قانون طاقتور اور کمزور کے 2 قومی نظریے کی چھڑی سے ہانکا جاتا ہے۔ سارا اسلام دیت کے ڈیڑھ سطری قانون میں سما جاتا ہے اور سیٹھ کے استحصال کو فضل ربی قرار دینے کے لیے مذہب فروش قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں۔ آزادی کا جشن سرکاری پروٹوکول سے منایا جاتا ہے اور کوئی بدزبان زیادہ سوال اٹھائے تو اسے بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔

گزشتہ 77 برسوں میں سوشل میڈیا نے فی الحال اسپیڈ بریکر جتنی طاقت پکڑی ہے۔ جو انصاف کسی طاقتور کو چند لمحوں میں میسر آجاتا تھا اب اسے لینے کے لیے بعض اوقات انتظار کی قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا زور ہے جو فیصلہ سازوں کو کچھ دیر کے لیے راستہ بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن اگر اس سلطنت کی عدالتیں یونہی بدمعاشوں کے آگے ‘بسنتی کا ناچ’ ناچتی رہیں تو انصاف کو چوکوں اور چوراہوں میں ننگا ناچ کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp