چند روز قبل بلوچستان کے ضلع خاران سے پولیو کیس رپورٹ ہوا، قومی ادارہ صحت نے بھی ضلع خاران میں 23 ماہ کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق کی، جس کے بعد ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 15 تک جا پہنچی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب سے رواں سال کے دوران پولیو کا پہلا کیس رپورٹ
مجموعی طور پر سامنے آنے والے کیسز میں پنجاب کے ضلع چکوال سے ایک، سندھ سے 2 جبکہ بلوچستان سے پولیو کے 12 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق بلوچستان کے 8 اضلاع پولیو سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جن میں ڈیرہ بگٹی، چمن، قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ، جھل مگسی، خاران اور ژوپ سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جبکہ افغان سرحد پر واقع ضلع قلعہ عبداللہ سے پولیو کے 5 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس سے قبل سال 2023 اور 2022 کے دوران صوبے سے پولیو کا ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا تھا۔
مزید پڑھیں:پاکستان میں رواں سال کے دوران پولیو کا تیسرا کیس رپورٹ
وزیراعظم کی فوکل پرسن برائے پولیو عائشہ رضا فاروق گزشتہ سال بلوچستان میں پولیو مہم کے انعقاد میں چیلنجز کا سامنا رہا جس کی وجہ سے بہت سے بچے پولیو ویکسین سے محروم رہے۔ بدقسمتی سے پولیو مہمات میں خلل کا نقصان اب بچوں کو ہو رہا ہے۔ وائرس خاص طور پر ان بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے اور ہم پر ظاہر کر رہا ہے کہ کن کن علاقوں میں بچے نہ صرف پولیو ویکسین سے محروم رہے ہیں بلکہ حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی مکمل نہیں کر پائے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ متاثرہ بچی میں غذائی قلت بھی تشخیص ہوئی اور بدقسمتی سے وہ انتقال کر گئی۔ گزشتہ ہفتوں میں صوبائی ٹیموں کے ساتھ مل کر انسداد پولیو مہم کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور مقامی چیلنجز کے مقامی حل پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ پولیو اور حفاظتی ٹیکوں کی شرح میں اضافہ کیا جا سکے۔ کمزوریوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے اور اس مہم سے پہلے انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ ہم جلد ہی وائرس کے پھیلاؤ میں کمی دیکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے، وزیراعظم شہباز شریف
عائشہ رضا کے بیان کے مطابق پولیو پروگرام نے گزشتہ ہفتوں میں تمام صوبوں کے ساتھ مل کر حکمت علمی پر غور کیا ہے اور ایک جامع روڈ میپ اپنایا جا رہا ہے جس کی مدد سے وائرس کی منتقلی کو ، خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے ہائی رسک اضلاع میں روکا جا سکے گا۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر انوار الحق کے مطابق پولیو پروگرام ستمبر میں انسداد پولیو مہم کی تیاریاں کر رہا ہے۔ یہ مہم بیک وقت افغانستان میں انسداد پولیو مہم کے ساتھ ہو رہی ہے تاکہ سرحد کے دونوں جانب پولیو کے خلاف بچوں کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو۔ پولیو وائرس 59 اضلاع میں پھیل چکا ہے اور ہماری ترجیح ہے کہ ہم اس کو روک سکیں تاکہ بچوں کو اس سے محفوظ رکھا جائے۔
مزید پڑھیں:پولیو مہم کے پہلے دن ہی 27 فیصد والدین نے بچوں کی ویکسینیشن سے انکار کیوں کیا؟
ماہرین کا مؤقف ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ 2 سالوں کے دوران پولیو کیسز نہ رپورٹ ہونے پر یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ پولیو صوبے میں جڑ سے ختم ہو گیا ہے۔ لیکن رواں برس پولیو کے تابڑ توڑ حملے بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
دراصل پولیو وائرس کا خاتمہ نہ ہونے کے پیچھے بہت سے پہلو ہیں۔ سب سے پہلا پہلو یہ ہے کہ بلوچستان میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں محفوظ نہیں اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پولیو ورکرز پر نا معلوم افراد کی جانب حملے کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:چمن: پولیو ٹیم پر حملہ، خواتین اور لیویز اہلکار زخمی ہوگئے
سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں دوسری جانب ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صوبے کے سرحدی علاقوں میں آج بھی عوام میں یہ تاثر موجود ہے کہ پولیو کے قطرے حلال نہیں، البتہ پولیو حکام کی جانب سے بہت سے علما پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پولیو کے قطروں سے متعلق واضح بیانات دے چکے ہیں لیکن ان سب کے باوجود آج بھی پولیو کو پلانے والے انکاری ماں باپ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔