فلائٹ نمبر 404: گلگت سے اسلام آباد روانہ ہونے والا جہاز جو 35 سال بعد بھی لاپتا ہے

اتوار 25 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’ہر سال 25 اگست کو زخم تازہ ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنوں کی یاد بہت آتی ہے جنہیں گزرے ہوئے 35 سال بیت گئے۔‘ یہ کہنا ہے شاہ دین کا جن کا تعلق گلگت کشروٹ سے ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ ہونے والے جہاز میں ان کے بھائی، بھابھی اور ان کی پانچ سالہ بیٹی سوار تھی، ان کا کوئی پتا نہیں چلا۔

جہاز کے روانہ ہونے کے آدھ گھنٹے بعد ہی ہمیں اطلاع ملی کہ جہاز لاپتہ ہو گیا ہے تاہم بہت جلد جہاز کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں گی۔ مگر اس کے بعد کوئی پتہ نہیں چلا ۔ چند دن بعد حکومت پاکستان نے یہ اعلان کر دیا کہ جہاز کریش ہو گیا ہے جس کے بعد ہم نے اپنے پیاروں کے آخری رسومات ادا کیں مگر اس کے باوجود ہمیں امید تھی کہ شاید ہمارے پیارے لوٹ آئیں۔

شاہ دین کہتے ہیں کہ ان کے والد اور والدہ اپنے بیٹے، بہو اور پوتی کے انتظار میں دنیا سے چل بسے، مگر ان کا کوئی پتہ نہیں چلا۔

’ شروع شروع میں چند برسوں تک ہمیں لگتا تھا کہ شاید ہمارے پیارے کہیں سے لوٹ آئیں گے۔ ہمیں کوئی کال آئے گی، کہیں سے امید کی کوئی کرن نظر آئے گی، کوئی اتا پتہ چل جائے گا مگر یہ امید 10 سال بعد دم توڑ گئی۔‘

نہ صرف شاہ دین بلکہ دیگر مسافروں کے لواحقین ایک عرصے تک انتظار کے کرب میں مبتلا رہے اور کچھ یہ سوچ کر چل بسے کہ ان کے پیارے کبھی نہ کبھی آجا ئیں گے مگر وہ نہیں آئے۔

صاحب جان کا تعلق دنیور گلگت سے ہے۔  وہ ان دنوں پی آئی اے میں ملازم تھے۔ حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس بدقسمت طیارے میں ان کی ماں اور بھائی سوار تھے۔

ان کا کہنا ہے’جب تک پیاروں کو نہیں دیکھتے ہیں، ایک امید تو ہوتی ہے کہ لوٹ آئیں گے مگر بتایا گیا کہ جہاز کریش ہوگیا، اس کا ملبہ نہیں ملا۔ میری ماں اور بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے پیدا کیا اور اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ دنیا میں کئی جہاز کریش ہوئے اور لوگ چل بسے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی حادثے کے شکار ہوگئے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے’ پیاروں کی یاد تو آتی ہے مگر جب کوئی اس حوالے سے پوچھتا ہے تو ہمارے زخم مزید تازہ ہوتے ہیں۔ جب تک ہم اس دنیا میں ہیں، ہمارے دلوں میں اپنے پیاروں کی یاد زندہ ہے۔‘

فلائٹ نمبر 404 کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کیا تھا؟

واضح رہے کہ 25 اگست 1989 کی صبح سات بجے گلگت سے اسلام اباد روانہ ہونے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی پرواز فلائٹ نمبر 404  میں مسافروں اور عملے کے ارکان سمیت 54 افراد سوار تھے ۔ جب جہاز اڑنے کے لیے تیار ہوا تو سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا۔اس کے مسافروں میں 5 شیر خوار بچے بھی شامل تھے۔ یہ طیارہ فضا میں چند منٹ بعد رہنے کے بعد لاپتہ ہو گیا۔ اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چلا کہ جہاز کہاں گیا۔ ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت نے بھی اس جہاز کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ کوئی جہاز ان کی حدود میں داخل نہیں ہوا۔

شاہ دین کہہ رہے تھے کہ گلگت سے اسلام اباد جانے والی جہاز میں ان کے پیارے سوار تھے۔ جہاز کے کپتان زبیر اور کپتان بلگرامی کو سیر و سیاحت کا بڑا شوق تھا۔ شاید انہوں نے سوچا کہ وہ استور گھوم پھر کر اسلام اباد کے لیے نکلتے ہیں۔

اس وقت استور کے کچھ لوگوں نے انکشاف کیا کہ جہاز استور کی حدود میں داخل ہوا تھا۔ موسم خراب ہونے کی وجہ سے شاید وہ راستہ بھٹک گئے ہوں گے یا پھر سری نگر ایئرپورٹ پر اترنے کی کوشش کی ہوگی اور  اسے  بھارت نے میزائل سے گرا دیا ہوگا۔

’مگر بھارت نے اس جہاز کے حوالے سے لاعلمی ظاہر کی۔ چند دن بعد بھارت کو ایک جہاز کی باقیات ملی تھیں جس پر ہمیں شک ہوا کہ شاید یہ وہی جہاز ہو جس میں ہمارے پیارے سوار تھے۔‘

فلائٹ 404  پاکستان کا اس وقت تک لاپتہ ہونے والا دوسرا جہاز تھا۔اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔ اور کن حالات میں یہ حادثہ پیش آیا۔

حکام نے طیارے کے ملبے کو ڈھونڈنے کی طویل اور ناکام کوشش کے بعد اس فلائٹ میں سوار تمام مسافروں کو آخر کار مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس وقت گلگت سے اسلام اباد کے لیے دس منٹ کے وقفے سے دو فلائٹس ہوا کرتی تھیں۔

اس جہاز کے کیپٹن زبیر قابل اور ماہر پائلٹ مانے جاتے تھے، وہ وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ سب سے خطرناک روٹ گلگت سے اسلام اباد ہی کا مانا جاتا تھا۔ کیپٹن زبیر اس روٹ پر جہاز اڑانے کا پانچ سال کا تجربہ رکھتے تھے۔

صبح 7 بج کر 43 منٹ کے بعد جہاز کا رابطہ منقطع ہوا۔ اس کے بعد نہ ہی کسی قسم کی مدد کی کال آئی اور نہ ہی خطرے کے حوالے سے کسی کو انفارمیشن ملی۔ اس کے بعد کئی مفروضے جنم لینے لگے، جس میں سے ایک شاہ دین کی کہانی بھی شامل ہے۔

ان دنوں بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں۔ جہاز کو تلاش کرنے کی تمام کوششیں کی گئیں مگر اس جہاز کا کوئی پتہ نہیں چلا۔

 نانگا پربت پر ایک برطانوی کوہ پیما مس گمین نے یہ بیان بھی جاری کیا کہ انہوں نے ایک جہاز کو بادلوں میں گم ہوتے دیکھا۔

ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والا یہ سرچ آپریشن آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور کوئی زندہ نہیں بچا ہے۔

کئی شکوک و شبہات نے جنم لیا کہ ہمسایہ ملک نے جہاز گرا دیا اور نانگا پربت کے پہاڑوں پر گر کر تباہ ہوگیا یا پھر جہاز کو اغوا کیا گیا۔حقیقت جو بھی تھی مگر اس پر حکومتوں نے پردہ ڈال دیا اور لاپتہ یا مرنے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے غم میں چل بسے۔ اور جو زندہ ہیں، وہ اپنے پیاروں کی یاد میں ہمیشہ تڑپتے رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp