ملائیشیا کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں دیوان نے پیر کو بعض جرائم کے لیے لازمی سزائے موت ختم کرنے کے لیے قانونی اصلاحات کی منظوری دے دی۔
ایوان زیریں سے منظوری کے بعد امید ہے کہ یہ قانونی سازی ملائیشیا کے ایوان بالا سے بھی منظور ہو جائے گی جس کے بعد قانون سازی کا یہ مسودہ ملائیشیا کے بادشاہ کے پاس دستخط کے لیے جائے گا۔
ان ترامیم کا اطلاق بشمول قتل اور منشیات کی سمگلنگ 34 ایسے جرائم پر ہو گا جن پر اس وقت سزائے موت دی جاتی ہے، ان 34 میں سے 11 جرائم کی سزا لازمی سزائے موت ہے۔
اغوا، آتشیں اسلحے کی برآمدگی اور اسمگلنگ جیسے جرائم میں بھی سزائے موت کو ختم کردیا جائے گا۔
ملائیشیا میں 2018 سے پھانسی پر پابندی عائد ہے، لیکن عدالتوں نے قیدیوں کو سزائے موت پر بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پیر کو منظور کی گئی ترامیم کے تحت سزائے موت کے متبادل میں بعض شرائط کے تحت کوڑوں اور 30 سے 40 سال تک قید کی سزا بھی شامل ہے۔
نائب وزیر قانون رام کرپال سنگھ نے کہا کہ سزائے موت ایک ناقابل واپسی سزا ہے جو جرم کے لیے مؤثر رکاوٹ نہیں ہے۔
نائب وزیر قانون رام کرپال سنگھ کے مطابق ’ہم من مانے طور پر ہر فرد کی زندگی کے موروثی حق کے وجود کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سزائے موت نے وہ نتائج نہیں لائے ہیں جو مطلوب تھے‘۔
یہ قانون ملائیشیا میں اس وقت منظور ہوا جب جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں سے بعض نے سزائے موت کے استعمال کو بڑھا دیا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال سنگاپور نے منشیات کے جرائم کے لیے 11 افراد کو پھانسی دی، جبکہ میانمار نے جمہوریت کے حامی 4کارکنوں کے خلاف دہائیوں میں پہلی مرتبہ موت کی سزا سنائی۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے پیر کے روز ووٹنگ کو اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے جو آئندہ آسیان اجلاسوں کے ہالوں میں کچھ سنجیدہ بات چیت کا سبب بنے گی۔