اتوار کی شب بلوچستان میں ایک بار پھر دہشت گردوں نے صوبے کے مختلف اضلاع میں پے در پے حملے کیے جن میں مجموعی طور پر 39 افراد جاں بحق جبکہ 16 زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 5 سیکیورٹی اہلکار اور 34 شہری شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں، مرنے والوں کی تعداد 39 ہوگئی
حکام کے مطابق موسیٰ خیل واقعے میں 19 کی شناخت کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ قتل ہونے والوں میں 17 کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے جبکہ 2 کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ دوسری جانب ضلع بولان سے ملنے والی 6 میں سے 4 لاشوں کو سنڈیمن اسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کی شناخت کر لی گئی ہے۔ قتل ہونے والوں میں سے 3 کا تعلق پنجاب جبکہ ایک کا تعلق ضلع سبی سے بتایا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق بلوچستان میں مجموعی طور پر گزشتہ 3 سالوں کے درمیان دہشت گردی کے واقعات میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سال 2022 کو صوبے میں دھماکوں ٹارگٹ کیلنگ اور دہشت گردی کے 310 واقعات میں 136 افراد جاں بحق جبکہ 447 زخمی ہوئے۔
سال 2023 بھی بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے بہتر نہیں رہا تھا۔ گزشتہ برس دہشت گردی 399 واقعات رونما ہوئے جن میں 223 افراد جاں بحق جبکہ 368 افراد زخمی ہوئے۔ رواں برس دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا اور صرف 8 ماہ کے دوران دہشت گردی کے 363 واقعات رونما ہوئے جن میں 140 لقمہ اجل بنے۔
مزید پڑھیے: بلوچستان میں اب تک کتنے پنجابی شہریوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے؟
بلوچستان میں ایک بار پھر لسانیت پر مبنی دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق لسانی بنیادوں پر دہشت گردی قتل ہونے والے افراد کی تعداد میں ایک سال کے دوران 300 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سنہ 2022 میں لسانی بنیاد پر دہشت گردی کے 4 واقعات رونما ہوئے جن میں 2 افراد جانبحق جبکہ 4 زخمی ہوئے۔ سنہ 2023 میں لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کے 13 واقعات رونما ہوئے جن میں 11 افراد لقمہ اجل بنے جبکہ 20 افراد زخمی ہوئے۔ تاہم سال 2024 کے دوران لسانی واقعات میں جانبحق افراد کی تعدادِ میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا۔
رواں سال کے8 ماہ کے دوران لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کے 8 واقعات میں 45 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق 26 اگست 2006 کو نواب اکبر خان بگٹی کے خلاف آپریشن اور ان کے قتل کے بعد بلوچستان میں لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔
مزید پڑھیں: شعبان سے 2 ہفتے قبل اغوا ہونے والے 7 افراد بازیاب نہ ہوسکے، اغواکاروں کی دی گئی ڈیڈ لائن بھی ختم
اس دوران سال 2012 تک لسانی بنیادوں پر قتل اغوا برائے تاون اور دھمکی آمیز مواد شہریوں کے گھروں میں پھینکنے کا سلسلہ جاری رہا لیکن 10 سال تک یہ سلسلہ تھم جانے کے بعد ایک بار دوبارہ سر اٹھانے لگا ہے۔