آسٹریلیا میں نئی قانون سازی کے تحت اب ملازمین دفتری اوقات کے بعد افسران کے فون کالز یا ای میلز کا جواب دینے کے پابند نہیں رہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق پیر کو آسٹریلیا میں دفتری ملازمین نے کام کے اوقات کے بعد مالکان و افسران کی ای میلز اور فون کالز کو نظر انداز کرنے کا قانونی حق حاصل کرلیا۔ وہ اب ڈیوٹی اوقات کے بعد کسی بھی فون یا ایم میل کا جواب دینے کے پابند نہیں رہے تاوقتیکہ اس رابطے کی کوئی بہت ہی اہم اور معقول وجہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ملازمین کو دفتری اوقات کے بعد باس کو نظرانداز کرنے کا حق بھی مل سکتا ہے؟
اس قانون کے نفاذ کا مقصد لوگوں کی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگیوں کے درمیان سرحد کو گہرا کرنا ہے۔ واضح رہے کہ کورونا کی عالمی وبا کے بعد اورخصوصاً ’ریموٹ ورک‘ کے بڑھتے رجحان کے بعد مالکان و افسران کا ملازمین سے ڈیجیٹل رابطہ بھی بڑھتا جا رہا تھا جو دفتری اوقات کے بعد بھی جاری رہتا تھا۔
آسٹریلیا کی سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی کو امید ہے کہ یہ اقدام لیبر اصلاحات کے پیکج کے ایک حصے کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور اس سے کارکن اپنے آرام کے وقت یا اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنے کے دوران افسران کے خوف سے اپنے فون پر توجہ مرکوز رکھنے سے آزاد ہوجائیں گے۔
ہم نہیں چاہتے کہ ملازمین 24 گھنٹے دستیاب رہنے پر مجبور کیے جائیں، وزیراعظم
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی نے ایک نیوز کانفرنس میں مذکورہ قانون متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ جس شخص کو دن کے 24 گھنٹے کام کا معاوضہ نہیں مل رہا اسے اس بات پر مجبور یا مطعون نہیں کیا جانا چاہے کہ وہ 24 گھنٹے آن لائن دستیاب رہے۔
دفاتر کی جانب سے اس قانون کی خلاف ورزی پر 93,900 آسٹریلین ڈالر (63,805 امریکی ڈالر) تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ آسٹریلیا پہلا ملک نہیں ہے جس نے کام سے رابطہ منقطع کرنے کا حق متعارف کرایا ہے۔ سنہ2017 میں فرانس نے کارکنوں کو کام کے اوقات سے بعد پیغامات کا جواب نہ دینے پر سرزنش سے بچانے کے لیے قانون سازی کی جب کہ جرمنی، اٹلی اور کینیڈا نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے ہیں۔ لیکن آسٹریلیا اس حوالے سے 8 گھنٹے (دفتری اوقات) کی شرط بھی عائد کردی کہ اس کے بعد ملازمین کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔
میں اس طرح کے اقدام کی سمجھی جانے والی ضرورت، آٹھ گھنٹے کام کے دن کو متعارف کرانے والا پہلا ملک، اپنی بین الاقوامی شبیہہ کے ساتھ ایک “خوش قسمت ملک” کے طور پر سورج کو چومنے والے ساحلوں اور آسان لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔
آسٹریلیا میں بلامعاوضہ کام کا سروے
آسٹریلیا انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال آسٹریلیا کے ایک اوسط ملازم نے ہر ہفتے اوسطاً 5.4 گھنٹے بلا معاوضہ کام کیا جب کہ 18 سے 29 سال کی عمر کے افراد نے 7.4 گھنٹے بلا معاوضہ مزدوری کی۔
مزید پڑھیے: بھارتی قوم ایک ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرنا چاہتی ہے؟
میلبورن میں سیلز اسسٹنٹ کے طور پر اپنی پہلی نوکری سنبھالنے سے پہلے ایک چینی تارک وطن وونگ نے سنا تھا کہ آسٹریلوی ورک پلیس عام طور پر اپنے ملازمین سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ صبح 9 سے شام 5 بجے کے شیڈول کے بعد بھی کام کریں یا اپنے فارغ وقت میں بھی دفاتر سے رابطے میں رہیں۔ لیکن وونگ کا کہنا ہے کہ ان کے باس نے انہیں اکثر دفتری اوقات ختم ہونے کے بعد بھی کام انجام دینے کو کہا۔
یونیورسٹی آف سڈنی میں ڈسپلن آف ورک اینڈ آرگنائزیشنل اسٹڈیز کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کرس رائٹ کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی کئی دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔
کرس رائٹ نے کہا کہ آسٹریلیا میں کچھ ایسی اسٹڈیز نے نشاندہی کی ہے کہ ٹیکنالوجی نے لوگوں کی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کے بیچ کی سرحد کو مسمار کر کے رکھ دیا ہے۔
’رائٹ ٹو ڈس کنیکٹ کمپنیوں کی کارکردگی بڑھائے گا‘
کرس رائٹ نے کہا کہ ان کے خیال میں ’رائٹ ٹو ڈس کینکٹ‘ (منقطع ہونے کا حق) سے متعلق قوانین آسٹریلیائی کمپنیوں کو بہتر طریقے سے کام کرنے کے بارے میں مزید تخلیقی انداز میں سوچنے میں مدد کریں گے۔
آسٹریلین کونسل آف ٹریڈ یونینز کے صدر مشیل او نیل نے کہا کہ ان کی تنظیم برسوں سے رابطہ منقطع کرنے کے حق کے لیے مہم چلا رہی تھی۔
مالکان، باس کے اعتراضات
بزنس کونسل آف آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو بران بلیک نے کہا کہ ملازمین کو دفتر سے باہر سوئچ آف کرنے کی اجازت دینے کے معاملے کو قانون سازی کے بجائے کام کی جگہوں پر نمٹا جانا چاہیے تھا۔
مزید پڑھیں: کیا ملازمین کو دفتری اوقات کے بعد باس کو نظرانداز کرنے کا حق بھی مل سکتا ہے؟
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے نئے قوانین کا مشترکہ اثر سرخ فیتے اور یونین کی طاقت میں اضافہ کرے گا جبکہ پیداواری صلاحیت کو کم کرے گا اور بدترین ممکنہ وقت پر ہماری معیشت کو نقصان پہنچے گا۔
ملازمین کے خدشات
نیا قانون آجروں کو ملازمین سے رابطہ کرنے سے نہیں روکتا ہے اور مالک یہ بحث کر سکتے ہیں کہ ملازم کا بات چیت سے انکار غیر معقول ہے۔ جس سے یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ آیا ملازمین کالز اور پیغامات کو حقیقت میں نظر انداز کرنے میں پراعتماد محسوس کریں گے۔
وونگ دفتری اوقات کے بعد اپنے باس کے رابطوں سے بیزار ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اس تشویش کی وجہ سے ایسا حق استعمال کرنے سے شاید گریز کریں کیوں کہ ہوسکتا ہے ایسا کرنے پر ان کی کارکردگی رپورٹ کو ہی خراب کردیا جائے۔