کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں ہر جماعت اور تنظیم کو آئینی اور قانونی حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جلسے کریں جلوس کریں اور ان کو اظہار رائے کا حق ملنا چاہیے۔ بیشک ہم اس جماعت تنظیم یا شخص کی ذات اور کردار پر انگلی اٹھا سکتے ہیں کہ آیا وہ جماعت تنظیم یا شخص جو منشور یا ایجنڈا پیش کررہے ہیں وہ اس کے یا ان کے کردار و افکار سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں؟
گزشتہ سال ڈیڑھ سے پاکستان تحریک انصاف بالخصوص پنجاب میں جلسے جلوس کرانا چاہتی ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ ہر بار حکومتی مشینری جلسوں جلوسوں میں رکاوٹ ڈال دیتی ہے۔ اصولاً یہ غلط ہے مگر جیسے کہ ابتداء میں اس بات کا ذکر کیا کہ ہمیں تصویر کا دوسرا رخ یعنی یہ بھی دیکھنا ہے کہ متعلقہ جماعت یا تنظیم کے کردار و افکار کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں کہ آیا وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ان میں کتنی صداقت ہے۔ پاکستان کے ایک جموریت پسند شہری کی حیثیت سے کردار و افکار میں تضاد کے باوجود جلسے جلوس اور احتجاج کے آئینی حق کو تسلیم کرتا ہوں اور حکومت کی طرف سے آنے والی رکاوٹیں غیر ضروری ہیں البتہ اس وقت خیبرپختونخوا میں ایک مکمل حکومت کے باوجود تحریک انصاف کے کردار پر شدید تحفظات بھی ہیں۔
تحریک انصاف کے سابق سربراہ جو بظاہر تو جماعت کے سربراہ نہیں لیکن عملی طور پر سب کچھ خان صاحب کے ہی ہاتھوں میں ہے، پارٹی کے ابتدائی دنوں سے بعض باتیں انتہائی زور دے کر کرتا آرہا تھا جن میں وی آئی پی کلچر اور کرپشن کے خلاف جہاد سب سے اہم نکات تھے لیکن جب ان کو موقع دلایا گیا تو ان کا کردار ان کے افکار کے بالکل متضاد نکلا۔ وی آئی پی کلچر کے خلاف باتیں کرنے والا خان صاحب جب وزیراعظم ہاؤس پہنچا تو ان کے سارے اصول نظریات وعدے وعید دھرے کے دھرے رہ گئے۔
خان صاحب نے خود کو ایک ایسے خول میں بند کر دیا کہ وہ اختلاف کے خوف سے صرف ان صحافیوں سے ہی ملتے تھے جو ان کی مداح سرائی کرتے آرہے تھے یا اگر یہ کہا جائے کہ ملنے والے صحافی نیم انصافی ہی تھے۔ حالانکہ خان صاحب کا بنیادی مدعا یہ رہا تھا کہ وہ جس مہذب معاشرے میں رہا ہے وہاں وزیراعظم سائیکل پر دفتر جاتے ہیں اور عوام کو آسانی کے ساتھ ملک کے وزیراعظم یا صدر تک رسائی ہوتی ہے۔ لیکن خان صاحب کی سائیکل ہیلی کاپٹر میں تبدیل ہوئی اور بجائے اس کے کہ بطورِ وزیراعظم ریاستی اداروں کی مظبوطی کے لیے کام کرتے، ان کے دور اقتدار میں دو کام ہوئے: اول تو جماعت میں شامل کی گئی مصنوعی لیڈرشپ نے بڑے پیمانے پر پیسہ بنایا، اور دوم خان نے اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں کو خوب لتاڑا اور جیلوں میں بند کیے رکھا جبکہ دوسری طرف سول ادارے کمزور تر ہوتے گئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب تک خان صاحب وزیراعظم تھے، سب کچھ ان کے احکامات کے مطابق ہو رہا تھا اور وہ مان بھی رہے تھے لیکن جیسے ہی اقتدار سے نکلے تو اپنے پچھلے کارناموں سے منکر ہو گئےکہ یہ تو سب کچھ فلاں اور فلاں کرا رہے تھے، ان کے پاس تو اختیار ہی نہیں تھا۔ حالانکہ یہ وہی کپتان ہے جو سالوں سے ایک ہی بات کرتا آرہا تھا کہ مہذب معاشروں کے مہذب حکمران اصولی اختلاف کی بنیاد پر اقتدار کو لات مار دیتے ہیں اور اپنا سامان کسی تھیلے میں ڈال کر نکل جاتے ہیں۔ چلیں اس حوالے سے ہم یہ کہیں گے کہ ہم کوئی مہذب معاشرہ نہیں ہیں لیکن خان صاحب تو مہذب تھے نا؟ لیکن خان صاحب نے اقتدار کے لیے اپنے سارے نظریاتی حدود پار کر لیے اور کرسی سے چمٹے رہے۔
حالانکہ انصافیوں کے ساتھ سیاسی بحث ناممکن ہوتی ہے اور اس وقت تفصیل میں جانا موضوع سے ہٹنے کے مترادف ہوگا لیکن وہ عموماً یہی پوچھتے ہیں کہ جب شریف فیملی جیل میں تھی اور پھر میاں صاحب لندن چلے گئے تو جمہوریت پسندی کا دعویٰ کرنے والے آپ جیسے لوگ میاں صاحب کی حمایت کردیا کرتے تھے لیکن خان صاحب کی مظلومیت نظر نہیں آتی؟ اپنا جواب مختصر ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے میاں صاحب، بالخصوص ان کی جماعت نے اپنے وعدے کے برعکس ووٹ کو عزت نہیں دی، لیکن میاں نواز شریف نے کم از کم یہ نعرہ تو لگایا کہ اقتدار ان کا حق ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو نہ کہ غیر جمہوری طاقتور طبقات کا۔ دوسری طرف خان صاحب جب سے اقتدار سے نکلے ہیں ان کی ساری باتوں کا نچوڑ بس ایک ہی ہوتا ہے کہ ہم جیسے فرشتوں کو نکال کر کرپٹ لوگوں کو اقتدار دلایا اور یہ کبھی نہیں کہا کہ اب فیصلہ ووٹ کرے گا نہ کہ کوئی طاقتور۔
خان صاحب نے جیل میں بیٹھ کر البتہ ایک بات ثابت کردی ہے کہ وہ اتنے بھی موم کے نہیں جتنا کہ ہم سب سمجھتے تھے مگر ان کی سیاسی خیانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مذاکرات ان لوگوں سے کرنا چاہتے ہیں جن سے مذاکرات کا کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ سیاسی حکومت بے اختیار ہے اور کھٹ پتلی ہے جبکہ خان نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اقتدار کو حقیقی ہاتھوں میں سونپنے کے لیے انہی کمزور کندھوں کو مظبوط کرنا ہوگا۔
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ خان صاحب سیدھے سادے بندے ہیں اور شاید انہوں نے ایسا سوچا نہیں ہوگا، تو وہ غلط ہیں۔ عموماً تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے دوست جب کسی اصولی بات پر لاجواب ہوتے ہیں تو وہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں کہ خان صاحب کو منافقت کرنی نہیں آتی وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب پرانی نوکری مانگ رہےہیں ان لوگوں سے جنہوں نے 2018 میں بھی ان کے لیے آر ٹی ایس بند کرائے تھے۔ لیکن شاید خان صاحب اپنے وجود کے سائے میں ریاست کو بھول گئے ہیں کہ اگر ان کو اقتدار دلایا جائے تو ملک کا کیا بنے گا؟
2017 میں آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے قریب پہنچنے والے ملک کو خان صاحب نے اپنے دور اقتدار میں ڈیفالٹ کے دہانے پر لاکر چھوڑ دیا۔ کرسی سے اترنے کے بعد شور مچانا شروع کر دیا کہ ان کے ساتھ غلط ہوا اور اپنی سیاسی ساکھ بنانے کی خاطر اس وقت سے لے کر اب تک ملک کے استحکام کو داؤ پر لگائے رکھا ہے۔ ایسے میں کون اتنی بیوقوفی کرے گا کہ ان کو اڈیالہ سے اٹھا کر دوبارہ وزیراعظم ہاؤس میں بٹھا دے؟ میری نظر میں ایسا نہیں ہونے والا کیونکہ خان صاحب سسٹم کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔
خان صاحب کے کرپشن کے خلاف جہاد کے دعووں کے برعکس ان کی موجودہ صوبائی حکومت کے سابق صوبائی وزیر شکیل خان نے جیل میں خان صاحب سے ملاقات کی اور مبینہ طور پر بیڈ گورننس سمیت کرپشن کی تحریری شکایات دیں جن میں بتایا گیا کہ ترقیاتی منصوبوں میں ٹھیکیداروں کی 7 ارب روپوں کے بقایاجات پر 77 کروڑ روپے کمیشن لیا گیا لیکن بجائے اس کے کہ پیسہ لینے والوں کا محاسبہ ہوتا شکیل خان کو مستعفی ہونا پڑا۔ شکیل خان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں صاف کردار کے سیاستدان مانے جاتے ہیں۔ اس وقت خیبر پختونخوا ہر لحاظ سے بدترین حالات کا شکار ہے اور اس تباہی کی زمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے کیونکہ صوبے میں اسی جماعت کی حکومت ہے۔
خیبرپختونخوا میں حالات مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں اور جس طرح کی کرپشن ہو رہی ہے، اس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خان صاحب سے ان کا ہوم گراؤنڈ چھن جائے گا۔ تب تک پختونخوا کے لوگ مزید مشکلات کا سامنا کریں گے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آنے والے ایک دو سالوں میں خیبرپختونخوا کے لوگ بھی خان صاحب کے کردار و افکار میں تضاد کی باتیں کھلے عام کر رہے ہوں گے۔