وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قانون سازی کرنے کی قائل ہے، افواہوں کا کوئی علاج نہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس کی تقرری آئین کے تحت کی جائے گی، عمران خان کو خواب آتے ہیں، من مرضی کی کوئی آئینی ترامیم زیر غور نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پارلیمنٹ کا 28 اگست کو ہونے والا مشترکہ اجلاس ملتوی
پیر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، قانون سازی پر بحث کے لیے مشترکہ اجلاس کا انعقاد ضروری ہے، صدر مملکت پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، اس لیے بہت ساری آئینی شقوں کو مشترکہ اجلاس میں ہی پیش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم مشترکہ اجلاس میں نہیں آتیں، آئینی ترامیم جب بھی آئیں گی پارلیمنٹ اور سینٹ میں الگ الگ آئیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان اکتوبر میں ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو ان کی جگہ نئے چیف جسٹس کی تقرری آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی عمل میں لائی جائے گی، اس حوالے سے کوئی دوسری گنجائش باقی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں:مشترکہ اجلاس، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مطابق کون سی قانون سازی ہوگی؟
انہوں نے بتایا کہ ملک میں 18 ویں ترمیم کے بعد آئین کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جب بھی ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو ان کی جگہ سینیئر ترین پیونی جج ہی ان کی جگہ لیتا ہے اور یہ طریقہ کار کسی شخص نے نہیں بلکہ ہمارے آئین نے دے رکھا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو خواب آتے ہیں اور ہمارے پاس افواہوں کا جواب دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، چیف جسٹس کی تقرری آئین میں لکھے ہوئے قانون کے مطابق ہی ہو گی، اس میں مزید بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں عدلیہ سے جیسے فیصلے آرہے ہیں آئینی ترمیم ملک کی ضرورت ہے، وفاقی وزیر مصدق ملک
انہوں نے بتایا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان اکتوبر میں ریٹائرڈ ہو رہے ہیں اور ان کی توسیع میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس حوالے سے یہ کہنا محض افوا کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت اپنی من مرضی کا جج لانے کے لیے آئینی ترامیم کرنا چاہتی ہے، اگر حکومت کو ایسا کرنا ہوتا تو چوری چھپے کر لیتے۔
وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترمیم کے بل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک پرائیوٹ اور ایک حکومتی سطح پر لایا جانے والا بل، حکومتی سطح پر پیش کیا جانے والا بل کابینہ کی منظوری کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اس میں کسی کی ذاتی دلچسپی یا رائے شامل نہیں ہوتی جبکہ پرائیوٹ بل کسی ایک ممبر کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے، جیسا کہ اس وقت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا ایک پرائیوٹ بل اسمبلی فلور پر پڑا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں آئینی ترمیم کا امکان: پارلیمنٹ میں اس وقت نمبر گیم کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ حکومتی بل کا ایک طریقہ کار ہے کوئی ایسی تجویز آئے تو سب سے پہلے حکومت میں شامل اتحادیوں کو اعتماد میں ضرور لیا جائے گا، مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وقت سے پہلے یہ کیوں کہہ دیا جاتا ہے یہ ہونا ہے اور وہ ہو جانا ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ اس ملک کے عوام کی بہتری کے لیے جو بھی قانون سازی کرنا ہوئی ضرور کریں گے، اگر کوئی قانون سازی نہیں کرنی توپھر پارلیمنٹ کا کوئی مقصد نہیں اسے بند کر دیا جائے۔ آئینی پیکج کی جو بھی بات کریں گے عام آدمی تک انصاف کی فراہمی کے لیے کریں گے۔