16 جولائی 1990 کو دو اشخاص کے قتل کے جرم میں گرفتار ہونے والا غلام شبیر 34 سال جیل میں گزار چکا ہے جن میں سے 24 سال اس نے سزائے موت کی کال کوٹھڑی میں گزارے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدی عید کیسے مناتے ہیں؟
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے سزائے موت کے مجرم غلام شبیر کی سزا عمر قید میں اس لیے تبدیل کر دی کیونکہ وہ عمر قید سے زیادہ سزا کاٹ چکا ہے۔
عدالت نے اپنے حکمنامے میں لکھا ہے کہ مختلف قومی تہواروں کے مواقع پر قیدیوں کو سزا میں ملنے والی تخفیف کو بھی اگر شمار کیا جائے تو غلام شبیر اس حساب 40 سال جیل کاٹ چکا ہے۔
عدالتی سست روی کی وجہ سے مجرم عمر قید سے کہیں زیادہ سزا کاٹ چکا ہے۔ عدالتی سست روی کی سزا مجرم کو نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں لکھا ہے کہ سزائے موت کے مجرموں کو لمبے تکلیف دہ انتظار سے بچانے کے لیے ان کی سزا کنفرم ہوتے ہی سزا پر جلد سے جلد عمل درآمد کر دیا جائے۔
ڈیتھ سیل قیدیوں کی حالت زار
سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں لکھا ہے کہ ڈیتھ سیل میں مقید قیدیوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ حتٰی کہ عمر قید کی سزا کاٹنے والے قیدیوں سے بھی خراب تر ہوتی ہے۔ ڈیتھ سیل میں قیدیوں کو کڑی نگرانی میں تنہا رکھا جاتا ہے۔
اس طرح کے ہر قیدی کو 9 بائی 12 فٹ کے سیل میں رکھا جاتا ہے اور اس طرح کے سیلز میں رہنے والے تمام قیدیوں کے لیے ایک ہی مشترکہ ٹوائلٹ ہوتا ہے جس سے ان کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔ قیدی کو دن میں دوبار صرف آدھے گھنٹے کے لیے سیل سے باہر جانے کی اجازت ملتی ہے۔
ڈیتھ سیل کے قیدی کو غیر نصابی سرگرمیوں اور باقی قیدیوں جیسے حقوق بھی نہیں ملتے۔ مجرم کو غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے۔ مجرم کی سزائے موت پر عمل درآمد کا وقت غیر یقینی ہوتا ہے جو کہ اس کے اندر اضطراب خوف اور بے چینی کی کیفیات کو جنم دیتا ہے۔ اس کرب سے نہ صرف مجرم خود بلکہ اس کا خاندان بھی گزرتا ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا جیل میں سزا یافتہ قیدیوں کی سہولت کا منفرد منصوبہ کیا ہے؟
ہائیکورٹس سے جب کسی مجرم کی سزائے موت کنفرم ہو جاتی ہے اس کے بعد اسے ڈیتھ سیل منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ عشروں تک اپنی سزا پر عمل درآمد کا منتظر رہتا ہے۔ لیکن سزائے موت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جائے۔
قیدیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے نیلسن مینڈیلا رولز کی شق نمبر3 کے مطابق قیدیوں کی قید ایسی نہیں ہونی چاہیئے جو ان کی سزا اور سختی میں مزید اضافہ کرے۔
قیدیوں کی حالتِ زار حکومتی عدم توجہی کا شکار
سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں لکھا ہے کہ یہ اہم معاملہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قیدیوں سے متعلق اپنے قوانین کا ازسر نو جائزہ لے کر ان کے لیے یکساں حقوق کا اطلاق کرنا چاہیے۔
صدر مملکت کے پاس رحم کی اپیلیں مقررہ وقت کے بعد دائر کی جاتی ہیں
عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر مملکت کو سزائے موت معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
سزائے موت کے قیدی یہ اپیلیں سپبرنٹینڈینٹ جیل کے ذریعے سے دائر کرتے ہیں لیکن عام طور پر یہ اپیلیں مقررہ وقت کے بعد دائر کی جاتی ہیں۔
صدر مملکت کی جانب سے بھی رحم کی اپیلوں پر فیصلے سالوں تاخیر کے بعد ہوتے ہیں۔ رحم کی اپیل دائر ہونے اور اس کے فیصلہ ہونے سے متعلق بھی طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
عدالت نے سفارش کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان قوانین میں ترامیم کر کے ان کو بین الاقوامی معیارات کے مطابق بنائیں۔