ناسا کے دو خلاباز سنیتا ولیمز اور بیری ولمور، جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے سے خلا میں پھنسے ہوئے ہیں آئندہ برس فروری میں اسپیس ایکس کے خلائی جہاز کے ساتھ زمین پر واپس آئیں گے، دونوں خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچانے والا خلائی جہاز بوئنگ اسٹار لائنر عملے کے بغیر زمین پر واپس آئے گا۔
خلانوردوں کی یہ جوڑی 5 جون کو 8 روزہ مشن پر روانہ ہوئی تھی لیکن اب وہ تقریباً 8 ماہ مدار میں گزاریں گے، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو خلا میں انسان کا پہلا گھر بھی کہا جاتا ہے، جہاں انسان زمین چھوڑ کر خلا میں نئے ماحول سے ہم آہنگی اور مطابقت پید اکرنے کی کوشش کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 8 دن کا خلائی دورہ امریکی خلابازوں کے لیے 8 ماہ کی سزا بن گیا
زمین سے تقریباً 250 میل کی دوری پر گردش کرنے والے اس خلائی اسٹیشن میں رہنا خود ایک تجربہ ہے، جہاں انسانوں کی آمدورفت 2 نومبر 2000 میں شروع ہوئی اور جہاں اب تک 20 ممالک کے 260 سے زیادہ خلاباز نہ صرف مختلف مشن پر جا چکے ہیں بلکہ بعض تو وہاں ایک برس سے زائد قیام بھی کر چکے ہیں۔
اب خلا میں جانا حقیقت بنتا جارہا ہے اور ایلون مسک کی ملکیتی کمپنی اسپس ایکس جیسی پرائیویٹ فلائٹس سے لوگوں کی خلا میں آمد و رفت شروع ہو گئی ہے، تاہم خلائی جہاز کی خرابی کے باعث اگر خلابازوں کا قیام طے شدہ عرصہ سے تجاوز کرنے لگے تو خیال آتا ہے کہ وہ اس تمام عرصہ زندہ رہنے کے لیے کیا کیا جتن کریں گے۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا نے خلا میں تیرتے ہوئے اولین انسانی گھر خلابازوں کے روز و شب کی منظر کشی کی ہے، جس کے مطابق خلائی اسٹیشن پر سب سے پہلا تجربہ دن اور رات کے مختصر ہونے کا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:ناسا کا خلاباز 8 ماہ بعد ٹماٹر کھانے کے الزام سے بری
’ہر 45 منٹ کے بعد آپ وہاں سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ کیونکہ خلائی اسٹیشن زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور 90 منٹ میں وہ اپنا چکر مکمل کر لیتا ہے۔تاہم خلائی اسٹیشن میں روزمرہ کے معمولات زمین کے 24 گھنٹے والی گھڑی کے مطابق چلتے ہیں۔‘
اس بین الاقوامی خلائی کے تین بنیادی حصے ہیں، پہلا ڈاکنگ ایریا ہےجس سے خلائی جہاز آ کر جڑتے ہیں اور اس راستے سامان لایا یا بھیجا جاتا ہے اور خلابازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے، دوسرا 5 افراد کی گنجائش پر مشتمل رہائشی حصہ ہے، جہاں ٹوائلٹ، کھانے کی میز اور اون بھی موجود ہے جبکہ تیسرا حصہ تجربہ گاہوں پر مشتمل ہے۔
’خلائی اسٹیشن کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ وہاں بیمار نہیں ہوں گے کیونکہ خلا میں جراثیم یا وائرس موجود نہیں ہے۔ وہاں جراثیم صرف خلابازوں کے ساتھ ہی جا سکتے ہیں جس کی بہت احتیاط کی جاتی ہے۔‘
مزید پڑھیں: امارات کے سلطان النیادی اسپیس واک کرنے والے پہلے عرب خلاباز
خلا میں جراثیم نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بیمار نہیں ہوسکتے، وہاں آپ کی صحت کو متاثر کرنے والے عوامل کارفرما ہیں، جن میں سرفہرست کشش ثقل کا نہ ہونا ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ آپ پاؤں پر کھڑے ہونے کی بجائے غبارے کی طرح تیرنا شروع کر دیتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہونے کے لیے کسی چیز کو پکڑنے اور سہارا لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق خلائی اسٹیشن میں پہنچتے ہی سر بھاری ہونا اور چہرے پر سوجن شروع ہوجاتی ہے یہاں تک کے بعض افراد کو متلی اور چکر بھی آنے لگیں، کشش ثقل کے بغیر خون کی گردش پاؤں کی جانب سست پڑ جاتی ہے اور اپنا رخ چہرے کی طرف کرلیتی ہے۔
’اس پر قابو پانے کا طریقہ ورزش ہے، خلائی اسٹیشن میں خلاباز روزانہ دو گھنٹے تک ورزش کرتے ہیں۔ وہاں ٹریڈ مل اور ایکسرسائز سائیکل موجود ہے، ورزش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر آپ اپنی ٹانگوں کو حرکت نہیں دیں گے تو اس کے اعصاب کمزور ہو جائیں گے اور چلنا پھرنا مشکل ہوتا جائے گا۔‘
مزید پڑھیں: اسٹار لائنر: امریکی خلائی صنعت کی اگلی بڑی کامیابی
خلائی اسٹیشن میں 45 منٹ کا دن اور 45 منٹ کی رات کے باعث مشکل مرحلہ سونے کا درپیش ہوتا ہے، جسے آلات اور مشینوں کے شور مزید مشکل بنادیتے ہیں، بے وزنی کی وجہ سے بستر پر ٹکنا بھی ممکن نہیں رہتا اور لڑھکنے کی بہت زیادہ گنجائش رہتی ہے۔
’آپ آنکھوں پر موٹا غلاف چڑھا کر، کانوں کو بند کر کے اور خود کو بستر کے ساتھ باندھ کر نیند لے سکتے ہیں۔ شروع میں تو مشکل ہو گی لیکن رفتہ رفتہ آپ اس کے عادی ہو جائیں گے، ہاں مگر کھانے کے معاملے میں آپ کو زیادہ مشکل نہیں ہو گی کیونکہ جو کچھ آپ کو کھانے کے لیے زمین پر ملتا ہے، تقریباً وہ سبھی چیزیں خلائی اسٹیشن پر بھی دستیاب ہیں۔‘
خلائی اسٹیشن پر چکن، بیف، مچھلی، جھینگے، چاول، سبزیاں اور پھل اور کئی طرح کے مشروبات مل سکتے ہیں، تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ زمین سے سپلائی کب آئی تھی، مشروبات زیادہ تر ٹوتھ پیسٹ جیسی ٹیوب میں ہوتے ہیں کیونکہ بے وزنی کی وجہ سے پانی اور مشروبات گولے سے بن کر تیرنا شروع کردیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: خلائی کیپسول کی بحفاظت لینڈنگ، ناسا نے پہلی مرتبہ سیارچہ کے نمونے حاصل کرلیے
’خلائی اسٹیشن کو بھیجی جانے والی سپلائی کی بات چل رہی ہے تو ذرا اس کے اخراجات کی بھی بات ہو جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ناسا نے سال میں پانچ سپلائز خلائی اسٹیشن تک پہنچانے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کا معاہدہ کیا ہے جبکہ وزن کے حساب سے سامان کی قیمت اس کے علاوہ ہے۔‘
پانی کی بچت کے لیے خلائی اسٹیشن میں فلٹریشن اور ری سائیکلنگ کا خصوصی نظام نصب ہے، جو استعمال شدہ پانی سمیت پیشاب کو بھی صاف کر کے دوبارہ پینے کے قابل بنا دیتا ہے۔
’خلائی اسٹیشن کا فلڑیشن پلانٹ اتنا طاقت ور ہے کہ خلا بازوں کے پسینے اور سانس میں موجود نمی میں سے بھی پانی چوس کر اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنا دیتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی اسٹیشن میں استعمال کیا جانے والا تقریباً 98 فیصد پانی دوبارہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھیں: اپالو 7 کے آخری زندہ بچ جانیوالے خلاباز 90 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
خلائی اسٹیشن میں پانی سے آکسیجن بھی تیار کی جاتی ہے تاکہ خلابازوں کو بقا کا مسئلہ درپیش نہ ہو، اس ضمن میں ایک پلانٹ پانی کے ایٹم کو توڑ کر اسے آکسیجن اور ہائیڈروجن گیس میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد ہائیڈروجن کو خلا میں خارج کر دیا جاتا ہے ۔
’خلائی اسٹیشن کو زیادہ سے زیادہ خودکفیل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ زمین کی سپلائز پر اس کا انحصار کم سے کم کیا جا سکے، سائنس دان خلا میں سبزیاں اگانے اور قدرتی عمل کے ذریعے آکسیجن بنانے کے بھی تجربات کر رہے ہیں۔‘
خلا میں موجود اس اسٹیشن پر نصب سولر پینل 90 کلوواٹ تک بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سب سے اہم بات یہ بھی کہ خلائی اسٹیشن میں زمین سے رابطے کا ایک مربوط نظام موجود ہے، جہاں سے نمبر گھما کر دنیا بھر میں کہیں پر کسی سے بھی بات کرنا ممکن ہے۔