بند ہونے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا سرمایہ کہاں منتقل ہو رہا ہے؟

جمعہ 30 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری گزشتہ ایک سال سے بحران کا شکار ہے، جو پاکستان کوکئی بلین ڈالر نقصان کے ساتھ لاکھوں مزدوروں کی بے روزگاری کا باعث بن رہا ہے۔ پیداواری لاگت میں 100فیصد اضافے سے مقامی انڈسٹری ریجن کے دیگر ممالک کی ایکسپورٹ کا مقابلہ نہیں کرپا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ صنعت کار ٹیکسٹائل انڈسٹری بند کرکے آمدن کمانے کے لیے سرمایہ دیگرشعبوں میں منتقل کررہے ہیں جبکہ مزدوروں میں بے روزگاری، قرض، فاقہ اور خودکشی منتقل ہو رہی ہے۔

گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ملک کے بڑے ستارہ ٹیکسٹائل گروپ کا ایک یونٹ بند ہونے پرملک میں معاشی بحران کی شدت پر بحث بڑھنے لگی، جس دوران بتایا گیا کہ 2سال سے کم عرصہ میں 40فیصد کے قریب ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہوگئی ہے جس وجہ سے 2لاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: 100 سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہونے کی خبریں، حقیقت کیا ہے؟

بجلی، گیس، را مٹیریل، بینک انٹرسٹ میں اضافہ کی وجہ سے انڈسٹری کو چلائے رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جس وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل یا جزوی بند ہورہی ہے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بڑا حصہ بند ہونے کے بعد صنعت کار سرمایہ کہاں استعمال کررہے ہیں۔ فیکٹری بند ہونے سے مزدور تو بے روزگار ہوکر گھر بیٹھ جاتا ہے یا کوئی اور کام ڈھونڈتا ہے لیکن سرمایہ کار ایک کاروبار بند ہونے پر اپنے پیسے کسی اور شعبہ میں انویسٹ کرتا ہے تاکہ منافع کما سکے۔

چند سالوں کے دوران صںعت کاروں نے پراپرٹی کے کارروبار میں انویسٹ کیا ہے جس کی بڑی مثال ستارہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 10سے زائد شہر کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹیز اور کمرشل پروجیکٹس ہیں جس میں ستارہ سپنا سٹی، ستارہ گرین، ستارہ گولڈ، ستارہ ڈائمنڈ، ستارہ پلاٹینم، ستارہ ویلی، ستارہ ٹاور سمیت دیگر انفرادی و اشتراک کے منصوبے ہیں۔

اسی طرح فیصل آباد کے دوسرے گروپس کے بھی پراپرٹی کے رہائشی اور کمرشل منصوبے شہر میں موجود ہیں۔ جس میں کمال گروپ کا بلیو وارڈ مال، ارشد گروپ کی آرائش ہاؤسنگ سوسائٹی، الفتح ٹیکسٹائل کی ریاض الجنہ، ایمٹیکس گروپ کا نجی اسپتال شامل ہے۔ اس طرح کے دیگر انڈسٹری گروپس کے چھوٹے بڑے رہائشی، کمرشل جن میں نجی تعلیمی ادارے، اسپتال بھی شامل ہیں۔

اس حوالے سے فیصل آباد کے صنعت کار کاشف ضیا کا کہنا ہے کہ معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری تباہی کی طرف گامزن ہے، پیداواری لاگت میں اضافہ کی وجہ سے ایکسپورٹ شدید متاثر ہوئی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک کی نسبت بجلی دو گنا ریٹ پر ملتی ہے جبکہ ان کا تیار کردہ مال 30 سے 40فیصد تک سستا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ہماری تیار کردہ مصنوعات کے بجائے دوسرے ممالک کی اشیا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ پڑھیں: فیکٹ چیک: کیا ستارہ ٹیکسٹائل بند ہوگئی؟

انہوں نے مزید کہاکہ ان حالات کے باعث صنعت کاروں نے سرمایہ انڈسٹری سے نکال کر پراپرٹی میں انویسٹ کیا جبکہ انیس فیصد انٹرسٹ ریٹ کے باعث بینکوں میں بھی سرمایہ منتقل ہورہا ہے۔

سینئر نائب صدر فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ڈاکٹر سجاد نے بتایاکہ فیصل آباد کی 40فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو چکی ہے، جس کی وجہ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہماری انڈسٹری دیگر ممالک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنعت کار فیکٹریاں بند کرکے اپنا سرمایہ چند سال کے دوران متحدہ عرب امارات منتقل کر رہے ہیں۔

جبکہ دبئی میں 8ہزار سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں جس کی بڑی وجہ وہاں شرائط کا نرم ہونا ہے اورحکومت کی طرف سے کاروبارہ کو بھی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جس سے سرمایہ محفوظ رہتا ہے، ہر سرمایہ دار بھی یہی چاہتا ہے۔

چیئرمین پاکستان لیبر قومی موومنٹ بابا لطیف کا کہنا ہے کہ دھاگہ اور کپڑا تیار ہونے کی لاگت میں اضافے سے فروخت میں بڑی کمی آئی ہے جس سے پاور لومز سمیت ٹیکسٹائل کے دیگر شعبے بند ہوئے ہیں، جس وجہ سے 2لاکھ تک مزدور بے روزگارہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکسٹائل مل مالکان کو سستی گیس کی مد میں 2320 ارب کی رعایت یا ڈاکا؟

فیکڑی مالکان تو فیکٹری بند ہونے پر سرمایہ پراپرٹی میں انویسٹ کرلیتے ہیں لیکن مزدور کے پاس مزدوری کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ بے روزگاری میں اضافہ سے فیصل آباد میں جرائم بھی بڑھے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل انڈسڑی بچانے کے لیے جلد اور مؤثر اقدامات نا اٹھائے گئے تو مزدورکے پاس جرائم اور خود کشیاں ہی بچیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp