ایک ماں ہی اندازہ کرسکتی ہے کہ بچے کو بیمار دیکھنا اور پھر اسے کھودینا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ سیلاب اور غربت کی ماری 38 سالہ روپی نے بھی اپنی اولاد گنوائی۔ اس موت کا سبب بہت اذیت ناک تھا جو آج بھی روپی کو بے سکون رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ بھر میں سیلاب زدگان کے لیے پکے گھر تعمیر کیے جائیں گے، بلاول بھٹو
سندھ کے ضلعے ٹنڈو الہ یار کے ایک گاؤں ’چھتن آریسر گوٹھ‘ کی رہائشی روپی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ درد صرف میں یا پھر مجھ جیسی کوئی اور ماں جانتی ہوگی کیوں کہ میں وہ بد قسمت ماں ہوں جو اپنے 14 ماہ کے بچے کی بھوک بھی نہ مٹا سکی‘۔
گو یہ حقیقت ہے کہ روپی ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن وہ اپنے بچے کی بھوک خاصی حد تک اپنے دودھ سے مٹاسکتی تھیں جس سے وہ غذا کی کمی اور قوت مدافعت انتہائی کمزور ہوجانے سے بچ بھی سکتا تھا۔ لیکن المیہ یہ تھا کہ دن بھر مزدوری کرنا اور رات کو خاندان کے تمام مرد و خواتین کا ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں ہی رہنے کی وجہ سے وہ اپنے بچے کو اپنا دودھ پلانے سے قاصر رہتی تھیں۔
روپی نے کہا کہ میں دن بھر کھیتی باڑی میں مصروف رہتی اور رات کو دیوروں اور جیٹھ کی اسی چھوٹے سے جھونپڑے میں موجودگی کی وجہ سے بے پردگی کا خوف مجھے گھیرے رہتا جس کی وجہ سے زیادہ تر میں اپنے بچے کو دودھ پلانے سے قاصر رہتی۔
انہوں نے بتایا کہ فروری کی ایک سرد رات تھی جب میرا بیٹا نمونیا کا شکار ہوکر دم توڑ گیا اور اسے اس وقت سب سے زیادہ میری، میرے پیار، میرے دودھ اور میری گود کی ضرورت تھی۔
روپی نے اعتراف کیا کہ وہ جانتی تھیں کہ بچے کو اس وقت ان کے دودھ، طاقتور غذا اور توجہ کی اشد ضرورت تھی مگر وہ بچے کی ضرورت پوری نہیں کر پائیں۔
مزید پڑھیے: 2022 کے سیلاب سے متاثرہ خواتین کو انوکھا خراجِ تحسین
انہوں نے کہا کہ ’میں شوہر کی مدد کے لیے کھیتی باڑی کے لیے چلی جاتی اور رات کو دیور اور جیٹھ کی موجودگی میں بے پردگی کے خوف کی وجہ سے اسے بھوکا رہنے دیتی، اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا جس سے اس کی جان چلی گئی‘۔
روپی نے مزید کہا کہ ’ میرے شوہر سمیت سب یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی تھی لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ بچے کی اصل مجرم میں ہوں‘۔
واضح رہے کہ یونیسیف کی 2023 کی ایک رپورٹ کی کے مطابق سندھ میں 2022 کے سیلاب سے متاثرہ 15 اضلاع میں 6 سے 23 ماہ کی عمر کے بچوں میں سے ایک تہائی درمیانے درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ ان میں سے 14 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس نوعیت کی کمی جان لیوا ہوتی ہے۔
پاکستان کا شمار ان ایشیائی ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورت کے لیے معاشرتی قدغنیں ہر قدم پر موجود ہوتی ہیں۔ وہ معاشرے کے دقیانوسی تصوارات اور من گھڑت اصولوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: ملک بھر میں بارش کی تباہ کاریاں، سندھ میں 77 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، کئی علاقوں کے لیے وارننگ جاری
روپی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جنہوں نے معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے بچے کو کھو دیا۔ روپی نے 2 برس میں اپنے 2 بچوں کو اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سنہ 2022 کے سیلاب کی وجہ سے سب کچھ تباہ ہو گیا تھا اور ان کے گاؤں میں بیشتر گھر گر کر تباہ ہو چکے تھے جن میں ان کا گھر بھی شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب نے ہمیں اتنی تکلیف دی کہ تب سے اب تک کا ہر دن تکلیف میں ہی گزرا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کہ سیلاب کے اوائل میں ہی انہوں نے اپنا پہلا بیٹا کھویا تھا جو پیدا ہوتے ہیں مختلف پیچیدگیوں کی وجہ سے مرگیا تاہم اس وقت ان جیسی بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے جنازے دیکھے۔
واضح رہے کہ سندھ میں 2022 کے سیلاب کی وجہ سے 1700 لوگ جان کی بازی ہارگئے تھے۔ ہزاروں ایکٹر پر پھیلے ہوئے کھیت اور فصلیں اور لاکھوں مکانات تباہ ہوئے تھے جن میں روپی کا گاؤں بھی شامل تھا جس کے سینکڑوں گھر گر کر تباہ ہوگئے تھے۔
گو حکومت سندھ نے بہت سے لوگوں کو ان کے گھر بناکر دیے لیکن روپی اور اس کا خاندان اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔ وہ سارا کنبہ آج بھی ایک چھوٹے سے چھونپڑے میں رہتا ہے جس میں پرائیویسی نام کی کوئی شئے نہیں۔
روپی کے لیے ناگزیر تھا کہ روزانہ کھیتوں میں جاکر دیہاڑی پر کام کریں تاکہ اپنے شوہر کا بوجھ کچھ کم کرسکیں۔ وہ اپنے شیرخوار بیٹے کو اپنی 8 سالہ بچی آمنہ کے حوالے کرجایا کرتی تھیں۔ رات کو اکثر وہی پرائیویسی والا مسئلہ درپیش ہوتا ایسی صورت میں بچے کی واحد عیاشی اس قہوے کے چند گھونٹ ہوا کرتے جو روپی اسے اکثر پلا دیا کرتی تھیں اور انہیں لگتا کہ وہ غذا اور دوا دونوں ہی ثابت ہوں گے۔ اس صورتحال کے باعث بچہ دن بہ دن کمزور ہوتا چلا گیا اور ٹپکتی چھت والے جھونپڑے میں پڑا پڑا جب وہ نمونیا کا شکار ہوا تو اس وقت تک اس میں قوت مدافعت بالکل ختم ہوچکی تھی اور اس مسلسل کرب سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ بچا تھا جو اس نے پالیا۔
روپی کا کہنا ہے کہ اب وہ بچہ کسی کو یاد نہیں سوائے ان کے۔ وہ خود کو ہی اپنے بچے کی موت کا ذمے دار سمجھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’ میں نہ جی پا رہی ہوں اور نہ ہی مر پا رہی ہوں اور اپنی کیفیت کسی کو سمجھا بھی نہیں سکتی‘۔
یہ بھی پڑھیے: سیلاب سے پاکستان کو جو نقصان ہوا اس کا ازالہ آئندہ سالوں میں بھی نہ ہوسکے گا، شہباز شریف
روپی اور ان جیسے دیگر بہت سے ’غربتوں کے مارے‘ لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی زندگی میں وہ کبھی بھی اپنا گھر نہیں بناسکیں گے۔ اس حوالے سے ان کے پاس صرف ایک ہی امید ہے کہ شاید کبھی حکومت سندھ کی توجہ ان پر ہو جائے اور وہ ان کے لیے ایسی چھت کا انتظام کردیں جو بارشوں میں ٹپکتی نہ ہو اور مسلسل گرتے پانی کی وجہ سے فرش پر پڑے ان کے بچے نمونیا سے نہ مریں۔
این جی او نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) کے ایک عہدیدار نے اس حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ٹنڈوالہ یار کے سروے کے مطابق چھتن آریسر گاؤں میں کل 91 گھر گرے تھے۔ جن میں سے46 گھروں کے پیسے مل چکے ہیں اور اب تک تقریباً 36 گھر تیار کیے جا چکے ہیں جبکہ مزید پر کام ابھی جاری ہے۔
نصف سے زائد متاثرہ خاندان کو ابھی گھر نہیں مل پائے ہیں اور وہ اپنے عارضی ٹھکانوں میں گزارا کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی ماہر محمد توحید کا کہنا ہے کہ جس حساب سے بارشیں ہو رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ سندھ کے کچھ علاقوں میں پھر سیلاب آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ متعلقہ اداروں نے سنہ 2022 کے سیلاب سے سبق نہیں سیکھا اور ایسے اقدامات نہیں ہوئے کہ امرجنسی صورتحال میں پانی کی نکاسی جلد ہوسکے۔
زرینہ خالق داد ٹنڈو حیدر میں لیڈی ہیلتھ ورکر کے طور پر کام کرتی ہیں اور وہ سنہ 2022 کے سیلاب کے دوران ہزاروں حاملہ خواتین کے لیے امید کی کرن سے کم نہ تھیں۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے زرینہ نے بتایا کہ سنہ 2022 کا سیلاب قدرت کی ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور امدادی کیمپوں میں ہزاروں حاملہ عورتیں ہوتی تھیں اورتمام کی حالت ہی تشویشناک ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شاید ہی ان میں کوئی ایسی حاملہ رہی ہو جو خون کی کمی اور غذائی قلت کاشکار نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے تباہ انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے 3 بلین ڈالر کے منصوبے منظور
زرینہ نے بتایا کہ یہاں ذات اور برادریوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس سیلابی صورتحال میں بھی سب ہر وقت اسی فکر میں رہتے تھے کہ کسی اور مرد کی نظر ان کی خاتون پر نہ پڑجائے اور اس وجہ سے جھگڑے بھی ہوجایا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو بیت الخلا جانے کے لیے بھی گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور سیلاب کے بعد جب وہاں پورے پورے کنبوں کو ایک ساتھ ایک ہی جھونپڑی میں گھسا دیا گیا تو ان خواتین کی زندگی مزید مشکل بن گئی تھی۔ وہاں انہیں پردے کے حوالے سے بہت سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
زرینہ نے روپی کی کہانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے علاقوں کے ہر دوسرے گھر کی عورت کی کہانی ہے جو اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی ہوتی۔
انہوں نے بتایا کہ ایک تو خواتین میں خود اکثر خون اور غذائیت کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان میں مناسب مقدار میں دودھ کا بننا ہی ممکن نہیں رہتا اور جو رہی سہی کثر ہوتی ہے وہ جھجھک اور معاشرتی رکاوٹوں سے پوری ہوجاتی ہے۔