سینیئر سیاستدان اختر مینگل قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی

منگل 3 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اور ملک کے سینیئر سیاستدان سردار اختر خان مینگل  پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔

سردار اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیا۔

سردار اختر مینگل نے محمود خان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے (صوبے کے) لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا اور ایسی سیاست کرنے سے تو بہتر ہوگا کہ میں پکوڑوں کی دکان لگا لوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے اور جب بھی بلوچستان کے مسئلے کی بات کرو تو بلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کو بھی نہیں بولنے دیا جاتا، میں ریاست، صدر اور وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں۔ 23 جولائی 2023 کو پی ایم ہاؤس میں ایک میٹنگ تھی، وہاں بیٹھ کر کہا کہ اگر میری سیاست کی آپ کو ضرورت نہیں تو ہم کنارہ کر لیں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی سیاست اور ریاست دونوں سے مایوس ہو چکا ہوں، اختر مینگل

سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج تک کوئی اردو بولنے والا، پشتو بولنے والا، بلوچی یا کوئی بھی مارا گیا ہے ان کی قاتل عدالتیں ہیں جو انصاف فراہم نہیں کرتیں، سب سے بڑے قاتل وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار کے لیے استعمال کیا۔

’یہ اسمبلی ہماری آواز کو نہیں سنتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے استعفے سے 65ہزار ووٹرز ناراض ہوں گے لیکن ان سے معافی مانگتا ہوں۔ پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے۔

سردار اختر مینگل نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 75 سالوں سے آپ کو سمجھا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہی، بلوچستان کے حالات کی نشاندہی کئی سال پہلے کرچکا ہوں لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہے، اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکا ہوں۔

’محمود خان اچکزئی اس امید سے ہیں کہ شاید ان کو اس پارلیمنٹ سے کچھ ملے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: عوام کو من پسند نمائندے چننے کا حق دیا جائے، اختر مینگل

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ بجائیں، آئین کے بنانے والے نا خود کو بچا سکے اور نا آئین کو بچا سکے، 4 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چیئرمین بنا دیا جاتا ہے، آج ہم یہاں کھڑے ہیں لیکن ہماری آواز ہی نہیں سنی جا رہی۔ اسمبلی میں بولنے کا حق ہی نہیں دیا جاتا، پھر ہمارا اس اسمبلی میں رہنے کا فائدہ کیا ہے، اسی لیے آج اس ایوان سے استعفے کا اعلان کرتا ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp