محسن نقوی کے لیے اور کتنی آزمائشیں ہیں؟

بدھ 4 ستمبر 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

محسن نقوی کے لیے مشہور تھا کہ انہوں نے  نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی ذمہ داری غیر معمولی انداز میں نبھائی اور ’محسن سپیڈ‘ سے اقدامات کیے۔ اسی وجہ سے 6 فروری 2024 کو کرکٹ حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ وہ بلامقابلہ 3 سال کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ امید کی جا رہی تھی کہ محسن نقوی بطور پی سی بی چیئرمین پاکستانی کرکٹ کو بلندیوں کی جانب لے جانے والے اقدامات کریں گے۔ وہ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر پاکستانی کرکٹ کے لیے مثال قائم کرجائیں گے۔ بالخصوص ان کرکٹ پرستاروں نے خاصی امیدیں باندھ لی تھیں جو ذکا اشرف کی جگہ محسن نقوی کے آنے پر تبصرے کر رہے تھے کہ وہ ایک اصول پسند اور سخت گیر شخصیت ہیں اور کرکٹ کی بہتری کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔

اس خیال کو اس وقت اور بھی تقویت ملی جب رواں سال مارچ میں محسن نقوی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے 7 رکنی سلیکشن کمیٹی کا اعلان کیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اس سلیکشن کمیٹی کا کوئی سربراہ نہیں ہوگا اور تمام اراکین کے پاس برابر کے اختیارات ہوں گے۔ اس کمیٹی میں سابق کرکٹر محمد یوسف، وہاب ریاض، اسد شفیق، عبدالرزاق کے علاوہ ٹیم کپتان، ہیڈ کوچ اور ڈیٹا اینالسس کے ایکسپرٹ بھی شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں ایک نئی حکومت بن چکی تھی اور محسن نقوی بطور وفاقی وزیر داخلہ بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ محسن نقوی کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ٹیم میں سیاست برداشت نہیں کریں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہوئے نظر آئے کہ کسی چیز کے لیے یہ نہیں کرنا چاہیے کہ میں نے ٹیم میں جانا ہے تو فلاں بندے کے گروپ میں ہونا پڑے گا، یا مجھے فلاں بندے کی گڈ بکس میں ہونا پڑے گا۔ محسن نقوی نے دو ٹوک لفظوں میں کھلاڑیوں سے کہا کہ اگرآپ کو اس طرح کی چیز نظر آئے تو آپ نے صرف مجھے ایک میسیج کرنا ہے اور میں آُپ کو بتا رہا ہوں کہ میں دوستی یاری والا آدمی بھی ہوں اور بدلحاظ بھی ہوں۔

شاہین کی برطرفی اور بابراعظم کی انٹری

محسن نقوی کے سامنے پہلا ٹاسک نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی 20 سیریز کا معرکہ تھا۔ بابراعظم جو عالمی کرکٹ کپ 2023 میں ناقص کپتانی کی بنا پر قیادت سے الگ ہوچکے تھے، ان کو ایک بار پھر کپتانی کا تاج اسی سال اپریل میں پھر پہنایا گیا۔ درحقیقت یہی وہ موڑ تھا جس سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی تباہی کا آغاز ہوا۔ بابراعظم کو شاہین شاہ آفریدی کی جگہ قیادت دی گئی جو نیوزی لینڈ کے خلاف اس کی سرزمین پر ٹی 20 سیریز چار ایک سے ہار گئے تھے۔ ان کی جگہ پھر بابراعظم کو کپتان بنانے کے اس فیصلے نے بھونچال مچا دیا۔ شاہین شاہ آفریدی واضح جواز کے بغیر ٹی 20 کی قیادت سے اچانک محروم کیے جانے پر مایوس ہوچکے تھے۔ اسی عرصے میں شاہین آفریدی سے منسوب ایک بیان وائرل ہوا جس میں ان کا یہی کہنا تھا کہ بطور کھلاڑی ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کپتان کی حمایت کریں۔ وہ میدان کے اندر اور باہر بابراعظم کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کو دنیا کی بہترین ٹیم بنایا جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیان سے شاہین شاہ آفریدی نے لاتعلقی ظاہر کی۔ ذرائع کے مطابق اس غلط بیانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے فوری طور پر بورڈ سے رابطہ بھی کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اس کی تردید کرنے پر غور کیا لیکن صورتحال خراب ہونے سے متعلق خدشات پر قریبی ساتھیوں نے انہیں ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ شاہین آفریدی کی جانب سے بیان سے اظہار لاتعلقی کے بعد پی سی بی نے انہیں ٹویٹ کرنے سے روک دیا ہے۔ اس سارے معاملے کا برا اثر یہ پڑا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی 20 کی ہوم سیریز میں پاکستانی ٹیم بمشکل سیریز بچا پائی اور یہ دو دو کی برابری پر ختم ہوئی۔ یہ نیوزی لینڈ کی سی ٹیم تھی جس کے خلاف پاکستانی سپراسٹارز نے بڑے ہاتھ پیر چلا کر فتح حاصل کی۔ بہرحال پاکستانی ٹیم کے اتفاق اور اتحاد میں دارڑیں پڑ چکی تھیں۔ ٹیم میں واضح طور پر 2 گروپس اور اختلافات کی خبریں ڈریسنگ روم سے نکل کر ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہی تھیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاہین آفریدی کو ہٹا کر پھر سے بابراعظم کو کپتانی دینا کرکٹ بورڈ کا ایک غلط فیصلہ ثابت تھا جس کے اثرات خوف ناک ثابت ہوئے۔

عامر اور عماد کی واپسی

کرکٹ حلقوں میں فاسٹ بولر محمد عامر اور آل راؤنڈر عماد وسیم کی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی 20 سیریز میں واپسی پر شدید احتجاج کیا گیا۔ دونوں کھلاڑی کرکٹ کو الوداع کہہ چکے تھے لیکن کرکٹ بورڈ نے ان کی ریٹائرمنٹ کے فیصلے کو واپس کرا کے دوبارہ پاکستان ٹیم میں شمولیت کرائی۔ کرکٹ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ عماد اورعامر کی واپسی سے ان کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی اور حق تلفی ہوئی جو ان کی غیر موجودگی میں بہتر پرفارم کر رہے تھے لیکن ان کھلاڑیوں پر عامر اور عماد کو ترجیح دی گئی۔ جس طریقے سے پی سی بی نے انہیں واپس لایا، وہ انتہائی غیر مناسب ہے۔ بورڈ کو چاہیے کہ اس بارے میں پالیسی بنائے کہ جو کرکٹ کو چھوڑ دیں ان کے لیے ٹیم میں واپسی ممکن نہ ہو۔ خاص طور پر محمد عامر کی شمولیت پر اس لیے بھی اعتراض ہوا کیونکہ وہ 4 سال پہلے کرکٹ سے راہیں جدا کر چکے تھے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر بابراعظم کی کپتانی اور کھیل پر تنقید کرتے اور پھر سب نے دیکھا کہ انہی کی قیادت میں وہ بولنگ بھی کراتے رہے۔ پی سی بی کے اس عجیب و غریب فیصلے پر اعتراض اس لیے بھی کیا جا رہا تھا کہ یہ سب کچھ محسن نقوی کی چیئرمینشپ میں ہورہا تھا۔

آئرلینڈ کی پاکستان کے خلاف ٹی 20 میں نئی تاریخ

رواں سال 10 مئی کو ڈبلن میں آئرلینڈ کرکٹ ٹیم نے پاکستان کو 5 وکٹوں سے ٹی 20 میچ میں شکست دی۔ یہ ایک کمزور ٹیم کی پاکستان کے خلاف اس فارمیٹ میں پہلی جیت تھی۔ یہ سیریز بھی پاکستان نے گرتے پڑتے دو ایک سے جیتی۔ اس ہار پر محسن نقوی کا یہ بیان بھی ذرائع ابلاغ میں آیا کہ آئرلینڈ سے شکست کوئی بھی قبول نہیں کر رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ہار سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

انگلینڈ کے خلاف ناکامی

ٹی 20 ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان اور انگلینڈ کے خلاف اس فارمیٹ کی سیریز جب کھیلی گئی تو ایک بار پھر پاکستانی ٹیم کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا۔ یہ سیریز انگلینڈ نے دو صفر کی واضح برتری سے جیت لی۔ یہاں بابر اعظم اور شاہین کے درمیان خلیج ہر کسی نے نوٹ کی۔

عالمی کپ میں امریکا سے شکست

یقینی طور پر 6 جون کو اب ہر سال امریکا میں جشن ہی منایا جائے گا کیونکہ یہ وہ تاریخ ہے جب نوآموز اور ناتجربہ کار امریکی کرکٹ ٹیم نے پاکستان جیسی تگڑی ٹیم کو ٹی 20 ورلڈ کپ میں یکطرفہ شکست سے دوچار کرکے ناصرف پاکستان کے لیے اس ایونٹ کے اگلے مرحلے میں پہنچنے کے امکانات ختم کیے بلکہ اپنی ٹیم کے لیے دنیا بھر سے تعریفیں بھی سمیٹیں۔ اس عبرت ناک شکست کے بعد تو جیسے پاکستانی ٹیم کے لیے یہ ایونٹ ڈروٴانا خواب بن گیا۔ امریکی ٹیم سے شکست نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ ٹیم میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے اور اس خیال کو تقویت انڈیا کے خلاف میچ میں بھی ملی جب آسان ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ کیا یہ شرم ناک امر نہیں کہ پاکستانی ٹیم ٹی 20 ورلڈ کپ کے اگلے مرحلے تک بھی نہیں پہنچ سکی؟

محسن نقوی کی کرکٹ میں سرجری

شکست کے بعد چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے دبنگ انداز میں یہ بھی کہا کہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ٹیم میں گروپنگ کرنے والے کھلاڑیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ محسن نقوی کہتے تھے کہ قومی ٹیم کوچھوٹی نہیں بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ پاکستانی کرکٹ اپنی سب سے کم درجہ کی پر فارمنس پر ہے، ہمارا سب سے بڑا چیلنج ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ توقع تھی کہ آنےو الے دنوں میں بہت کچھ ہونے جا رہا ہے لیکن بڑی یا چھوٹی سرجری کا بس انتظار ہی رہا۔

کھلاڑیوں کے بجائے سلیکشن کمیٹی فارغ

ٹی 20 ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی دکھانے پر کھلاڑیوں کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے ایک بار پھر سارا ملبہ گرایا گیا سلیکشن کمیٹی پر، جبھی سلیکٹر وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ یہاں یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ وہاب ریاض اس بڑے ایونٹ میں بطور سینئرمینیجرگئے تھے۔ جولائی میں نئی سلیکشن کمیٹی بنائی گئی۔  نئی سلیکشن کمیٹی میں ریڈ اور وائٹ بال کے کپتان، کوچ، اسد شفیق اور محمد یوسف شامل رہے۔ کپتان، کوچ، محمد یوسف اور اسد شفیق کو کمیٹی میں مکمل اختیارات دیئے گئے ہیں۔

بنگلہ دیش کی تاریخ ساز جیت

بطور پی سی بی چئیرمین محسن نقوی کے لیے یہ واقعی بری خبر ہے کہ ان کی ٹیم بنگلہ دیشی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کا شکار ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، جس کے متعلق یہی کہا جارہا تھا کہ پاکستانی ٹیم آسانی کے ساتھ اس کا شکار کرلے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس اور پاکستانی ٹیم کو مہمان ٹیم نے ہر شعبے میں آؤٹ کلاس کردیا۔ پاکستانی ٹیم کو تاریخ میں دوسری بار اپنی سرزمین پر حریف کے ہاتھوں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ایک ایسی شکست ہے جس نے ہر کسی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ راولپنڈی میں کھیلے جانے والے ان دونوں ٹیسٹ میچز میں مہمان ٹیم کا پلہ بھاری رہا۔ پاکستانی ٹیم کے چناؤ میں عجیب و غریب فیصلوں پر بات ہورہی ہے۔ کسے کھیلنا چاہیے تھا اور کسے نہیں یہ بحث اب طول پکڑ چکی ہے۔

محسن نقوی کا وہی پرانا عزم

پہلے ٹیسٹ میں ہار کے بعد محسن نقوی کا یہی کہنا تھا کہ کسی کی خواہش پر نہیں بلکہ کرکٹ کو ٹھیک کر کے ہی جائیں گے۔ جب سے عہدہ سنبھالا ہے کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ چلے جائیں۔ ایسے نہیں بلکہ کرکٹ کو درست کرکے ہی رخصت لیں گے۔ محسن نقوی نے یہ بھی کہہ دیا کہ ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔

غلطی کہاں ہے؟

کرکٹ پنڈتوں کے مطابق محسن نقوی کے لیے اب بہت بڑی آزمائش ہے۔ جب سے انہوں نے پی سی بی کا عہدہ سنبھالا ہے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا معیار زبوں حالی کا شکار ہے۔ کرکٹ میں ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں جو ٹیم کی پرفارمنس کو مزید گراتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ پلئیر پاور کے خلاف محسن نقوی کب بھرپور ایکشن لیں گے؟ کرکٹ میں بڑی سرجری کیا صرف منجیمنٹ کے چہرے بدل کر ہی ہوتی رہے گی؟ کیا کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے گا کہ کھلاڑیوں کا بھی احتساب ہو؟

حالیہ شکستوں کے بعد ذمے دار کھلاڑیوں کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کی جائے گی ؟ حق دار اور مستحق کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا؟ ڈومسٹیک کرکٹ کی بہتری کے لیے کیا انقلابی فیصلے کیے جائیں گے؟ کیا ایک کے بعد ایک شکست کے نتیجے میں کپتان کو تبدیل کرنے کی میوزیکل چیئر ایسے ہی کھیلی جاتی رہے گی؟ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ محسن نقوی کوئی ایسا بھرپور قدم اٹھائیں جو آنے و الے دنوں میں ہر چیئرمین پی سی بی کے لیے مثال بن جائے؟

پاکستان کا اگلا مرحلہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقا سے ہے۔ کیا یہ موجودہ ٹیم اس بات کی واقعی اہلیت رکھتی ہے کہ ان مضبوط ٹیموں کو شکست دے پائے؟ کیا یہ المیہ نہیں کہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم 8 ویں نمبر پر ہے یعنی 9 ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک سے صرف ایک درجہ بہتر۔ کیا محسن نقوی جادو کی نہیں اپنے غیر معمولی سخت فیصلوں کی چھڑی ہلا کر سب کچھ بہتر کرنے کی کوشش کریں گے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp