جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے باعث حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے، ضرورت پڑی تو ملک کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے، سیاستدانوں اور قائدین کو غیر ضروری سمجھنے سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سینیئر سیاسی قیادت کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، معاملات الجھنے کی صورت میں ریاست کے لیے مشکل ہو جاتا ہے، تمام معاملات کو سیاسی لوگ ہی طے کر سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ اختر مینگل نے استعفیٰ دیدیا ہے، انہوں نے واضح کیا کہ اس نہیں طرح چلے گا، وہ اداروں کے استعمال کے لیے پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھے کہ ان کے مطلب کی قانون سازی ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں:مولانا فضل الرحمن سے اسد قیصر کی ملاقات، پی ٹی آئی کا مستقبل کیا؟
مولانا فضل الرحمان کے مطابق سیاستدانوں کو با اختیار بنانا چاہیے، پاکستان پروکسی وار کا میدان جنگ بنا ہوا ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، راکٹ لانچرز اور ہر طرح کے جدید اسلحے سے مسلح جتھے بھتے لے رہے ہیں، بلوچستان میں ایک ہی دن میں کئی بڑے حملے ہوئے، ایوان اس صورتحال پر غور نہیں کرے گا تو کون کرے گا
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم کبھی ان معاملات کو سنجیدہ نہیں لیتے، دونوں طرف صورتحال جذباتی ہوجاتی ہے، ایک فریق علیحدگی اور دوسرا طاقت کےاستعمال کی حد کی بات کرتاہے، سربراہ جے یو آئی کے مطابق ایسی صورتحال صرف سیاسی لوگ سنبھال سکتے ہیں، جن کی اہمیت ختم کی جا رہی ہے، سینئر اورسنجیدہ سیاسی قیادت کوسائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں:کیا ممکنہ اپوزیشن اتحاد کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کریں گے؟
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جذباتی لوگوں کو آگے لانے سے ریاست کا نقصان ہوتا ہے، ہمیں سیاستدانوں کو بااختیار بنانا ہو گا، سیاستدانوں کے معاملات سیاستدانوں کے حوالے کیے جائیں ورنہ مسئلے حل نہیں ہوں گے، اس ساری صورتحال میں پوری ذمہ داری سے قدم اٹھانا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وجہ سے حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے، ملک کو ضرورت پڑی تو چپے چپے کی حفاظت کریں گے، سیاستدانوں اور قائدین کو غیر ضروری سمجھنے سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
مزید پڑھیں:مولانا فضل الرحمن کا دورہ افغانستان
مولانا فضل الرحمان کے مطابق معاملات مشکل نہیں اگر سنجیدگی سے بیٹھ کر تسلی سے بات چیت کی جاسکے، ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا الزام افغانستان پر عائد کیا جاتا رہا ہے، سرحد پر ڈھائی سو چوکیاں ہیں انہیں کیسے عبور کیا جاتا ہے، ذمہ داریاں کسی اور پر ڈالنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ریاست کو ترجیحات طے کرنا ہوں گی، اس وقت اہم مسئلہ لاپتا افراد کا ہے، جو 10 اور 20 سال سے غائب ہیں، ان کے خاندان کو حکومت بتائے کہ ان کا بچہ کدھر ہے، انہوں نے بتایا کہ آرمی پبلک اسکول سانحہ سے ایک سال قبل گرفتار نوجوان کو بھی بعد میں اسی مقدمہ میں پھانسی دی گئی۔
مزید پڑھیں: کیا مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں انتخابی اتحاد بنا رہے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان معاملات سے اداروں کیخلاف نفرت پیدا ہوتی ہے، جو ہم آئندہ چند نسلوں تک ختم نہیں کرسکیں گے، انہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مطابق بلوچستان سمیت تمام صوبوں کو خود مختاری اور وسائل پر کںٹرول فراہم کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت بے روزگاری اور مہنگائی جیسے سنگین بحران سے دوچار ہے اور حکومت لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کرسکتی لیکن پی ڈبلیو ڈی اور یوٹیلیٹی اسٹور جیسے ادارے ختم کررہی ہے، ان اداروں کے خاتمے کے بل ان ہزاروں ملازمین اور ان کے خاندانوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔