وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے دکھ ہوا ہے، فیصلہ لارجر بینچ کو کرنا چاہیے تھا۔
اعظم نذیرتارڑ نے کہا ہے کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرسکتا ہوں، فیصلے سے ملک میں جاری سیاسی آئینی بحران میں اضافہ ہوگا۔
وزیر قانون نے کہا کہ پہلے 3 رکنی بینچ کا فیصلہ رد کیا، جب چاروں ججز نے فیصلے میں پیٹیشنز خارج کر دی تھیں تو ہر چیز واضح ہو گئی تھی، اس ابہام کو دور کرنے کے لیے فل کورٹ کو بیٹھنا چاہیے تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پارلیمان سے جو کل بات کی تھی وہ درست تھی۔ سپریم کورٹ میں تقسیم ہے۔ تقسیم ختم کرنا عدالت کے سربراہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ادارے کو متحد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی تمام استدعاؤں اور درخواستوں کو مسترد کردیا ہے۔ حکومتی اتحاد سپریم کورٹ کے معاملات سے مطمئن نہیں ہے۔
اعظم نذیرتارڑ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ اب 13 رکنی بینچ بٹھائیں جو ان معاملات کو دیکھے۔
قومی اسمبلی میں خطاب
بعدازاں وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام جائز مطالبات کو نظر انداز کر کے آج سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس سے کہا 13 رکنی بنچ بنا دیں جو فیصلہ کریں گے قبول ہو گا، ہم نے گزارش کی کہ ملک کو آئینی و سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے فل کورٹ بینچ بنا دیں۔
وزیر قانون کا کہنا ہے کہ ایک ضدی شخص کی انا کی تسکین کے لیے 2صوبوں کی اسمبلیاں توڑی گئیں، 2اسمبلیوں کی تحلیل کا مقصد انتخابات کرانے سے زیادہ سیاسی تقسیم پیدا کرنا تھا، ہم انتخابات سے بھاگنے والے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کو احتیاط کرنی چاہیے کہ کہ کوئی سہولت کاری کا الزام نہ لگے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اتنے اہم آئینی و قانونی معاملے میں عجلت کیا پاکستان کے استحکام کو دوام دے گی؟ یہ مقدمات 4 ججز کے اکثریتی اختلاف رائے سے مسترد کر دیے گئے تھے، یہ مقدمات آئین کے آرٹیکل 103 کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں۔ ایوان بار بار مطالبہ کر چکا ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ 3رکنی بینچ نے انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ایک ساتھ ہیشفاف انتخابات ہونے چاہئیں۔