15 ستمبر 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیدیا تھا، جس کے خلاف وفاقی حکومت نے اپیلیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں وفاقی حکومت کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب قانون میں ترامیم کو بحال کردیا ہے، تاہم سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ عمران خان نے ان ترامیم کیخلاف درخواست نیک نیتی سے دائر نہیں کی تھی کیونکہ ان ترامیم میں سے بیشتر خود انہوں نے متعارف کرائی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیب ترامیم بحال ہونے سے نیا توشہ خانہ کیس فارغ ہوگیا، میں خوش ہوں، عمران خان
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ چیف جسٹس اور ججز پارلیمنٹ کے لیے گیٹ کیپر کا کردار ادا نہیں کر سکتے، پارلیمنٹ اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے۔
نیب قانون میں ترامیم کیا ہیں؟
پی ڈی ایم حکومت نے ترمیم کے ذریعے نیب کے دائرہ اختیار میں مقدمات کی مالی حد پچاس کروڑ روپے مقرر کر دی تھی، یعنی اس حد سے نیچے کے کرپشن مقدمات نیب کے دائرہ کار سے باہر ہوں گے، کابینہ، ایکنک، اور پارلیمانی کمیٹیوں کے فیصلوں کو بھی تحفظ دیتے ہوئے نیب کو ان متعلق سوال کا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: نیب ترامیم بحال: سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کیا لکھا؟
حالیہ ترامیم کے تحت کرپشن کے الزام سے متعلق یہ ثابت کرنا بھی نیب کی ذمے داری ہے کہ جس پر الزام ہے آیا اس کو کوئی مالی فائدہ پہنچا کہ نہیں، ترامیم کے تحت بار ثبوت ملزم کی بجائے نیب پر ہو گا، اسی طرح نیب کی حراست میں ملزمان کے ریمانڈ کو 90 روز سے کم کر کے 14 دن تک کر دیا گیا ہے۔
پرانے قانون کے تحت نیب ریفرنس کیں نامزد ملزم کی ضمانت ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ہی ممکن تھی تاہم حالیہ ترامیم کے بعد ضمانت کا اختیار احتساب عدالت کے جج کو دے دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: نیب ترامیم کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ جاری
ترامیم کی بحالی سے سب پارٹیوں کو فائدہ ملے گا؛ فیصل چوہدری
مختلف مقدمات میں عمران خان کی وکالت کرنیوالے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل فیصل چوہدری نے وی نیوز کو بتایا کہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم مخصوص افراد کو ریلیف دینے کے لیے کی گئی تھیں اور اسی بنا پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے انہیں چیلنج کیا تھا، گزشتہ برس ستمبر میں سپریم کورٹ نے ان ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کیخلاف وفاقی حکومت نے اپیلیں دائر کی تھیں۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ ان ترامیم کی بحالی سے عمران خان کو بھی فائدہ ملے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور صدر آصف زرداری کو بھی فائدہ ملے گا اور ان کیخلاف توشہ خانہ سے متعلق مقدمات ختم ہو جائیں۔
’عمران خان کو ان ترامیم کی بحالی سے القادر ٹرسٹ کیس میں فائدہ ملے گا کیونکہ ان ترامیم کے تحت نیب کابینہ، ایکنک اور پارلیمانی کمیٹیوں سے متعلق فیصلوں پر سوال نہیں کر سکتا، لہذا اس تناظر میں ان کیخلاف القادر ٹرسٹ کیس ختم ہو جائے گا۔‘
مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: کے پی حکومت کی سماعت لائیو دکھانے کی درخواست سمجھ سے بالاتر ہے، سپریم کورٹ
فیصل چوہدری کے مطابق اسی طرح سے بانی پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ 2 کیس چونکہ پچاس کروڑ سے کم مالیت کا مقدمہ ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے گا لیکن ممکنہ طور پر وہ کسی اور عدالت میں چلایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ نواز شریف اور آصف زرداری کیخلاف توشہ خانہ سے متعلق مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے، انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کی بحالی سے نیب کے ریمانڈ کی مدت میں 90 روز سے کم ہو کر 14 روز ہو جائے گی۔
نیب عملی طور پر ختم، کرپشن کیخلاف کوئی موثر ادارہ موجود نہیں؛ عمران شفیق
نیب کے سابق پروسیکیوٹر عمران شفیق نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ فیصلے کے بعد نیب اب ایک عضو معطل ہے اور ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس کی کوئی وقعت اور حیثیت باقی نہیں رہی، دوسرے الفاظ میں عملی طور پر اس وقت پاکستان میں کرپشن روکنے کے لیے کوئی قانون اور ادارہ موجودہ نہیں۔
’صوبائی سطح پر اینٹی کرپشن کے ادارے گو کہ موجود ہیں لیکن وہ مقامی سطح پر معاملات پر نظر رکھتے ہیں اور ان کے کرپشن قوانین 1947 سے بنے ہوئے ہیں جو موجودہ حالات سے میل نہیں کھاتے، آج کل کے دور میں جس طرح کی کرپشن ہوتی ہے، وائٹ کالر کرائمز ہوتے ہیں ان کیخلاف نیب ہی ایک موثر ادارہ تھا۔‘
مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس، چیف جسٹس کی کس بات پر عمران خان مسکرا دیے؟
عمران شفیق کے مطابق یہ نیب کا ہی ادارہ تھا جو جائیدادوں سمیت بینک اکاؤئنٹس تک منجمد کرسکتا تھا لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ موجودہ حکومت نے حکومت میں آنے سے پہلے نیب کے خاتمہ کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا ہے۔
’نیب ترامیم کے تحت نیب صرف 50کروڑ روپے سے زائد مالیت کے مقدمات سن سکتا ہے اس کا مطلب ہے کہ کوئی سرکاری افسر اگر 49 کروڑ روپے کے اثاثے بنالے، 49 کروڑ روپے رشوت لے تو اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، دوسرا ان ترامیم سے کابینہ کے فیصلوں کو تحفظ دیا گیا ہے جبکہ بیشتر تجارتی و معاشی نوعیت کے معاملات کی خرابی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور عمران خان کے درمیان کیا مکالمہ ہوا؟
عمران شفیق کا موقف تھا کہ چینی پر سبسڈی، چینی کی درآمد و برآمد، گندم کی درآمد، پیٹرول اور بجلی سے متعلق تمام فیصلے کابینہ ہی میں کیے جاتے ہیں اور انہی فیصلوں سے کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈل منظر عام پر آتے ہیں لیکن اب ان فیصلوں کو تحفظ ملنے کے بعد نیب ان معاملات میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔
’نیب قانون میں ترمیم کا سب سے زیادہ فائدہ تو پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے اٹھایا اور وہی اس کے بڑے بینفشری ہیں۔‘