مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سینیٹ سے منظور کردہ پرامن اجتماع اور امن عامہ کا بل کسی بھی طرح پرامن سیاسی سرگرمیوں کے خلاف نہیں۔ چاروں صوبوں میں پہلے ہی ایسے قوانین موجود ہیں جبکہ اسلام آباد میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ ایوان سے ’اجتماع و امن عامہ بل 2024‘ پر اپوزیشن لیڈر اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے زوردار تقاریر کیں، یہ بل اکثریت سے منظور ہوا اور اس حوالے سے اپوزیشن نے پنڈورہ باکس کھولنے کی کوشش کی۔ ہم نے اپوزیشن کی تمام باتیں تحمل سے سنیں، جب جواب دینے کی کوشش کی تو ہماری اس کوشش کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب چیئرمین سینیٹ نے مجھے فلور دیا تو میرے تقریر کرنے سے پہلے ہی کورم کی نشاندہی کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ سارا دن جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، امن و امان کے حوالے سے قانون پر تنقید کرتے رہے لیکن ان میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اس کا جواب بھی سن لیتے۔ دوسروں کو بات نہیں کرنے دیتے اور پھر کہتے ہیں کہ امن عامہ کا قانون کیوں بنایا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا بل سینیٹ میں پیش، ایوان میں گرماگرم بحث
عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ قانون کسی کے حقوق غصب کرنے کے لیے نہیں، اس قانون کے تحت ہر ایک کو پرامن احتجاج کی آزادی حاصل ہے۔ آئی سی ٹی کے اندر ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا، چاروں صوبوں میں یہ قانون موجود ہیں۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے پرامن احتجاج کی اجازت حاصل ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ چند لوگ آ کر سڑک بند کرکے بیٹھ جائیں اور مریض، ملازمین، سکولوں کے بچے متاثر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آج جو اس قانون پر تنقید کر رہے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ہم شاہراہ دستور بند کر دیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو، یہ چاہیں تو کور کمانڈر کا گھر جلا دیں، جی ایچ کیو پر حملہ کر دیں اور کسی قاعدے قانون میں نہ آئیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا آپ واقعی کوئی سیاسی جماعت ہیں؟ آپ سیاسی جماعت ہیں تو کسی دوسرے کو بولنے کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سیاسی اجتماعات پیٹرول بم چلاتے ہیں؟ پیٹرول بموں سے مذاکرات کرتے ہیں؟ یہ کون سی لاجک ہے؟
انہوں نے کہا کہ آپ قاعدے قانون کے تحت جلسے جلوس کریں، قانون سب کے لیے بنتے ہیں لیکن انہیں تو اپنے دور میں کسی قانون تک کی ضرورت نہیں تھی، یہ تو راہ چلتے لوگوں سے کہتے تھے کہ ان کی گاڑی سے ہیروئن نکل آئی، گھر بیٹھے شخص کو یہ اٹھا لیتے تھے۔
مزید پڑھیں:نواز شریف ملکی سیاست میں بہت اہم اور مثبت کردار ادا کرنے جارہے ہیں، عرفان صدیقی
عرفان صدیقی نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں 200 کے قریب سفارت کار مقیم ہیں، ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہاں سرمایہ کاری لائیں، ایسے شہروں میں کون آئے گا جہاں چند قدم چلنا بھی مشکل ہو؟ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے دو سو مقامات پر ایک رات میں حملے کیے اور کہتے ہیں کہ یہ قانون نہ بناؤ، یہ قانون کل کو ہماری گردنوں میں پڑے گا، ان لوگوں نے بغیر کسی قانون کے ہماری گردنوں میں شکنجے ڈال رکھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جلسوں کی کوئی پرواہ نہیں، ان کے قائدین ہر روز کبھی عدالت، کبھی جیل کے باہر جلسے کر رہے ہوتے ہیں، جلسے کرنا ان کا حق ہے لیکن جلسے قانون کے دائرے میں رہ کر کیے جائیں۔ پرامن طریقے سے جلسہ کرنے چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن یہ ان کی روایت نہیں۔ اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ 3 سال کی سزا ہے جو 15 دن بھی ہو سکتی ہے اور 2 ماہ بھی۔ بار بار جرم کرنے پر 10 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔