اسکردو سے تعلق رکھنے والی خاتون مریم بتول عرف عینی اپنے کاروبار کے کیساتھ دوسری خواتین کے لیے بھی روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔
عینی نے بتایا کہ وہ 1999 سے گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے کام کررہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مَیں سوشل ورکر ہونے کیساتھ ساتھ خواتین کو ہنر سکھا کر ان کے لیے روزگار کے موقع فراہم کر رہی ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے بیوٹیشن کی ابتدائی تربیت آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت حاصل کی اور اس کے بعد دیگر خواتین کو بھی تربیت فراہم کی۔
عینی کے مطابق وہ بلتستان کی پہلے خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے کاروبار میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کی۔ انہیں بیوٹیشن ،اسٹیچنگ اور دیگر سوشل ورکس کی وجہ سے کئی ایوارڈز
سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
مزید پڑھیں:خیبرپختونخوا میں پہلی میرا تھن دوڑ، خواتین ایتھلیٹس کو اجازت نہ مل سکی
عینی کہتی ہیں کہ شروع میں مجھے مالی مشکلات اور معاشرے کی مخالفت سامنا تھا۔ عام خیال کے مطابق خواتین کا گھروں سے نکل کر کام کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر الحمدللہ آج ہماری محنت اور کامیابی کی وجہ سے لوگ اپنی بیٹیوں کو ہمارے پاس تربیت کے لیے بھیجتے ہیں۔
عینی بلتستان کی خواتین کے لیے روشنی کی پہلی کرن ثابت ہوئیں، جس نے خواتین کو ہنر سکھایا، اس کے علاوہ عینی بلتستان کی پہلی فوٹوگرافر خاتون ہیں جنہوں نے اپنے شوہر سے فوٹوگرافی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد خواتین کی فوٹوگرافی کی اور کئی خواتین کو یہ ہنر بھی سکھایا۔
عینی کہتی ہیں کہ انسان محنت اور لگن سے کام کرے تو مشکلات خودبخود کم ہو جاتی ہیں۔ الحمداللہ اب کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں ہے، کاروبار بھی بہتر چلا رہی ہوں اور میری فیملی نے سپورٹ بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے بچوں کو پڑھانے کے علاوہ دیگر خواتین کی فلاح و بہبود اور انہیں ہنر سکھانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔