سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں وزارت داخلہ کی جانب سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ انٹیلیجنس بیورو کی رپورٹ پر وزارت داخلہ کی جانب سے رواں برس 17 فروری کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ایکس ڈاٹ کام کو عارضی طور پر بند کرنے کا کہا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کے مطابق آئی بی نے اپنی رپورٹ میں 8 فروری کے انتخابات کے بعد متحارب انٹیلیجنس اینجنسیاں اور ریاست مخالف عناصر کی جانب سے ریاستی اداروں کیخلاف جھوٹے پروپیگینڈے کے ذریعہ ملک میں انتشار اور تشدد کو ہوا دینا تھا اور اس سلسلہ میں ریاست کی رٹ کو کمزور کرنے کے لیے ایکس المعروف ٹوئٹر سمیت مختلف سوشل میڈیا ایپس استعمال کی جارہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر کی بندش سے پاکستان کو معاشی طور پر کیا نقصانات ہوئے؟
وزارت داخلہ کے حکام نے وی پی این کے ذریعے ایکس تک رسائی کو بھی غیر قانونی قراد دیا جس پر ان سے دریافت کیا گیا کہ غیر قانونی وی پی این کا سرکاری سطح پر استعمال کیسے کیا جارہا ہے، جس پر جواب دیا گیا کہ ایکس کی بندش کا معاملہ تاحال 3 ہائیکورٹس میں زیر سماعت ہے اور کہیں سے بھی حتمی فیصلہ نہیں آسکا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بتایا گیا کہ پی ٹی اے کو سوشل میڈیا کمپنیوں کیخلاف 150 شکایات روزانہ کی بنیاد پر موصول ہوتی ہیں، جن میں سے 98 فیصد ٹک ٹاک، 48 فیصد میٹا جبکہ 52 فیصد شکایات یوٹیوب کیخلاف موصول ہوتی ہیں۔
چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق شکایات عام آدمی اور اداروں کی طرف سے موصول ہوتی ہیں، پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی پر مواد بلاک کیا جاتا ہے، ایکس یعنی سابقہ ٹوئٹر کی بندش کا معاملہ اسلام آباد، سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
مزید پڑھیں: سوشل میڈیا بندش سے لاکھوں پاکستانیوں کا روزگار خطرے میں
سینیٹر ہمایوں مہمند نے دریافت کیا کہ کیا ایکس ڈاٹ کام تک رسائی کیلئے وی پی این کا استعمال قانونی ہے، وزارت داخلہ کے حکام کا موقف تھا کہ وی پی این کے ذریعے ایکس ڈاٹ کام تک رسائی غیرقانونی ہے، جس پر سینیٹر ہمایوں مہمند کا موقف تھا کہ اگر یہ غیرقانونی ہے تو وزیراعظم کیوں وی پی این استعمال کرتے ہیں۔
اس موقع پر سینیٹر انوشہ رحمان بولیں کہ اگر پاکستان میں ایکس بلاک ہے تو مکمل طور پر بلاک کیوں نہیں ہوسکتا، چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ اس معاملے پر پی ٹی اے نے وی پی این کی رجسٹریشن کا آغاز کیا ہے، اب تک 20 ہزار 500 وی پی این کی رجسٹریشن کی جاچکی ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ اتھارٹی وی پی این کی رجسٹریشن کے حوالے سے ہر جگہ مہم چلا رہے ہیں، بعد میں تمام غیر قانونی وی پی این بلاک کردی جائیں گی۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش، فری لانسرز کو کتنا نقصان ہوا؟
سینیٹر انوشہ رحمان نے دریافت کیا کہ وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ایگنیائیٹ اور یو ایس ایف کا بورڈ کیوں چیئر نہیں کرتیں، کیا وزارت آئی ٹی کے اپنے ہی اداروں کے بورڈ سے متعلقہ وفاقی وزیر آئی ٹی کو نکال دیا گیا ہے، حکام وزارت آئی ٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس او ای ایکٹ کے تحت ایسے اداروں کے بورڈ ممبرز نجی شعبہ سے ہی ہوں گے۔
وزارت آئی ٹی حکام نے بتایا کہ ایس او ای ایکٹ کے بعد چیئرمین بورڈ بھی نجی شعبہ سے ہوں گے، جس پر سینیٹر انوشہ رحمان بولیں کہ ایسا آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا گیا ہے، وزیر اگر ان بورڈز کی ممبر نہیں تو اپنے ایجنڈے پر کیسے عمل کروائیں گی۔