امریکی ووٹرز اپنا اگلا صدر منتخب کرنے کے لیے 5 نومبر کو انتخابات میں حصہ لیں گے، جو ابتدائی طور پر 2020 کے صدارتی انتخابات کا ’ری پلے‘ نظر آرہا تھا لیکن گزشتہ جولائی میں صورتحال اس وقت یکسر تبدیل ہوگئی جب صدر جو بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم ختم کرتے ہوئے نائب صدر کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار حمایت کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: معروف امریکی مورخ کی کملا ہیرس کے حق میں پیش گوئی کا کیا مطلب ہے؟
اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس پیش رفت کا مطلب ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت ہوگی یا امریکا کی پہلی خاتون صدر؟ امریکی صدر جو بائیڈن کی صدارتی دوڑ سے دستبرداری کے فیصلے تک سامنے آئے مختلف پولز میں انہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مسلسل پیچھے ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا، اس وقت بعض پولز کے مطابق کملا ہیرس بھی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکیں گی۔
لیکن کملا ہیرس کی جانب سے انتخابی مہم کے آغاز کے بعد صدارتی دوڑ سخت ہوگئی ہے اور انہوں نے قومی پولز کے اوسط میں اپنے حریف پر ایک معمولی برتری حاصل کرلی ہے اور اسے ابھی تک برقرار بھی رکھا ہوا ہے، قومی جائزوں میں کملا ہیرس 46 فیصد سے زائد جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ 44 فیصد سے زائد ووٹ لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات: کملا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر 4 پوائنٹس کی برتری حاصل کر لی
شکاگو میں اپنی پارٹی کے 4 روزہ کنونشن کے دوران کملا ہیرس نے 47 فیصد تک کامیابی حاصل کی، جسے انہوں نے 22 اگست کو تمام امریکیوں کے لیے ’آگے بڑھنے کے نئے راستے‘ کا وعدہ کرنے والی تقریر کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچایا، تاہم اس کے بعد سے اس کے نمبرز میں بہت کم اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ کی اوسط بھی نسبتاً مستحکم رہی ہے، جو 44 فیصد کے قریب منڈلا رہی ہے، اور رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی توثیق سے کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، جو 23 اگست کو آزاد صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دست بردار ہوگئے تھے۔
اگرچہ یہ قومی جائزے ایک صدارتی امیدوار کی ملک بھر میں مقبولیت کو جانچنے کا اہم پیمانہ ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ انتخابات کے نتائج کی پیشن گوئی کرنے کا ایک درست طریقہ بھی ثابت ہوں۔
مزید پڑھیں: بارک اوباما کی کملا ہیرس سے گفتگو ریکارڈ، سابق صدر نے کیا پیغام دیا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اپنے صدر کو منتخب کرنے کے لیے الیکٹورل کالج سسٹم کا استعمال کرتا ہے، اس لیے زیادہ ووٹ حاصل کرنا اس سے کم اہم ہو سکتا ہے کہ وہ کہاں جیتے ہیں۔
امریکا میں 50 ریاستیں ہیں لیکن چونکہ ان میں سے زیادہ تر تقریباً ہمیشہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، اس لیے حقیقت میں چند ہی ریاستیں ایسی ہیں جہاں دونوں امیدواروں کو جیتنے کا موقع ملتا ہے، یہ وہ علاقے ہیں جہاں الیکشن جیتے اور ہارے جاتے ہیں اور یہ ’میدان جنگ‘ والی ریاستوں کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
’میدان جنگ‘ بنی ریاستوں سے کون جیت رہا ہے؟
اس وقت ’میدان جنگ‘ کہلائی جانیوالی 7 ریاستوں میں پولز بہت کم مارجن ظاہر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ جاننا مشکل ہے کہ کون واقعی دوڑ میں آگے ہے، قومی جائزوں کے مقابلے میں ریاستی جائزے کم ہوتے ہیں اس لیے اس نوعیت کی تحقیق کے لیے ڈیٹا ناکافی رہتا ہے اور ہر پول یا جائزے میں غلطی کا مارجن ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ تعداد زیادہ یا کم ہو سکتی ہے۔
حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ کچھ ریاستوں میں دونوں صدارتی امیدواروں بمشکل ایک فیصد سے بھی کم پوائنٹ سے الگ کیے جاسکتے ہیں، ان ریاستوں میں پینسلوینیا بھی شامل ہے، جو کلیدی ہے کیونکہ اس کے پاس پیشکش پر سب سے زیادہ الیکٹورل ووٹ ہیں اور اس وجہ سے فاتح کے لیے مطلوبہ 270 ووٹوں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل کملا ہیرس سے خوفزدہ، مباحثے سے راہ فرار اختیار کرلی
پینسلوینیا، مشی گن اور وسکونسن سبھی ڈیموکریٹک گڑھ رہے تھے لیکن ٹرمپ نے انہیں 2016 میں صدارتی انتخابات جیتنے کے راستے پر حریف پارٹی کے لیے سرخ نشان زد کردیا تھا، صدر جو بائیڈن نے ان ریاستوں سے 2020 میں دوبارہ ووٹ لیے اور اگر کملا ہیریس اس سال بھی ایسا کر سکیں تو وہ انتخاب جیتنے کے راستے پر گامزن ہوں گی۔
کملا ہیرس کے ڈیموکریٹک امیدوار بننے کے بعد صدارتی انتخابات کی دوڑ کس طرح بدل چکی ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس دن صدر جو بائیڈن صدارتی انتخابات سے دست بردار ہوئے تھے، وہ ان 7 ’میدان جنگ‘ والی ریاستوں میں اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریباً 5 فیصد پوائنٹس پیچھے تھے۔