ہاتھوں سے محروم بلوچستان کے ادیب جنہوں نے پاؤں سے 19 کتابیں لکھیں

جمعرات 12 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان کے ضلعے قلع سیف اللہ کے حسن زئی گاؤں سے تعلق رکھنے والے 59 سالہ عبدالقادر مجرم دونوں ہاتھوں سے معذور ہیں لیکن اس کے باوجود ’ہمت مرداں مدد خدا‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انہوں نے نثر اور شاعری کی 19 کتابیں تصنیف کی ہیں۔

اب تک وہ اپنے پاؤں کی مدد سے کل 57 کتابیں کمپوز کرچکے ہیں جن میں ان کی اپنی شاعری، ناول، اور افسانوں کی 19 کتابیں بھی شامل ہیں۔

سنہ 2001 تک عبدالقادر واپڈا کی ملازمت کرتے رہے پھر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ ایک روز وہ کرنٹ لگنے کے باعث دونوں بازوؤں سے محروم ہوگئے۔ اس المناک حادثے کے باوجود عبدالقادر نے ہمت نہیں ہاری اور پشتو ناول نگاروں اور ادیبوں کی صفوں میں ایک مضبوط مقام پانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔

عبدالقادر کا قلمی نام مجرم ہے۔ اس تخلص کے وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے مجرم کا انتخاب اس لیے کیا کہ ہم تمام انسان کہیں نہ کہیں معاشرتی مجرم ہیں، کرپشن، خرد برد اور تمام اخلاقی برائیوں سے بھرے ہوئے ہیں، معاشرے کی تمام تر برائیوں کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں، اس لیے میں نے اپنے تمام برے اعمال تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے مجرم کا تخلص منتخب کیا‘۔

تب ہی وہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں،

مجرم تا دی یوسہ کڑی ضرور
ہسی یے نہ درماتول لاسونہ

(مجرم آپ سے ضرور کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے ، ورنہ دونوں ہاتھوں سے یوں محروم نہ کیے جاتے)

مجرم کہتے ہیں دونوں ہاتھوں سے معذور ہونے کے بعد انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ ابتدائی دنوں میں پیروں کی انگلیوں میں قلم تھام کر بمشکل چند الفاظ لکھ پاتے تھے لیکن وقت گزنے کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے۔ ایک دن لاہور کے ایک رہائشی نے ان سے کہا کہ ’لالا میں آپ کے لیے کمپیوٹر لاتا ہوں‘۔ اس نے پھر کمپیوٹر لا کر 2،3 دن کی ٹریننگ بھی دی جس کے بعد عبدالقادر پاؤں کی انگلیوں سے کی بورڈ کے بٹن دبانا سیکھ گئے۔

عبدالقادر مجرم کہتے ہیں کہ پشتون معاشرے میں کتابوں کی اشاعت سے بمشکل کسی ادیب اور شاعر کا ذریعہ معاش بنتا ہے اسی لیے انہوں نے بھی کبھی اس پیشے کا انتخاب ذریعہ معاش کے لیے نہیں کیا۔

ان کی 3 کتابوں کو بلوچستان کی سیاحت و ثقافت کے محکمے کی جانب سے 3 ایوارڈ ملے ہیں جبکہ گورنر بلوچستان نے بھی انہیں ایکسیلینسی ایوارڈ سے نوازا ہے۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ ’ٹوٹے ہوئے بازو‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے دردناک حادثے کو شاعری کی صورت میں بیان کیا ہے۔ ’زندگی اور امیدیں‘ ان کا دوسرا شعری مجموعہ تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ مجرم نے افسانہ نگاری میں بھی اپنا ادبی کمال دکھاتے ہوئے ’انہوں نے ایسا کیوں کیا‘ کے نام سے اپنی پہلی کتاب شائع کی۔

مجرم بتاتے ہیں کہ شعری مجموعے اور افسانہ نگاری کے بعد جب سنہ 2010 میں ان کے ناول ’کشادہ راستہ ہے کوئی آجائے گا‘ کو پہلا انعام ملا تو انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں مزید کام ناول نگاری میں ہی کرنا چاہیے۔ مجرم کے مشہور ناولوں میں ’وہ قبرستان نہیں رکھتے ہیں‘، ’مقدس عہدے‘، ’گوشن آرا‘ اور ’ملا بشر‘ شامل ہیں۔ اب تک ان کے کل 13 ناول، ایک افسانہ اور 4 شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp