رواں ہفتے کوہاٹ میں بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہنے 2 پولیس اہلکاروں کی دہشتگردوں کے حملے میں شہادت کے بعد پولیس کو فراہم کردہ حفاظتی سامان پر تنقید کے بعد پولیس نے اس معاملے کی چھان بین شروع کردی ہے۔
پولیس کے مطابق پیر کو کوہاٹ میں تروایح کی سیکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات دونوں اہلکاروں نے بلٹ پروف جیکٹ اور ہیملٹ پہن رکھے تھے مگر اس کے باوجود دہشتگردوں کی جانب سے مبینہ طور پر سب مشین گن سے فائر کی گئیں گولیاں ان کے جسم میں داخل ہوکر جان لیوا ثابت ہوئیں۔
پولیس کے انسدادِ دہشتگردی محکمے نے مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہیں جبکہ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس پولیس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
متعلقہ تھانے کی جانب سے ایف آئی آر کے لیے سی ٹی ڈی کو ارسال مراسلے میں بھی بتایا گیا ہے کہ گولیوں سے اہلکاروں کے ہیلمٹ اور جیکٹس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی خیبرپختونخوا پولیس کو فراہم کردہ بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹس کے غیر موثر ثابت ہونے کی خبر سامنے آتی رہی ہیں اور اس ضمن میں پہلے بھی تحقیقات ہوتی رہی ہیں۔
دہشتگردوں کے حملے میں پولیس کی بلٹ پروف جیکٹس کی ناکامی کے اس حالیہ واقعے کی بازگشت صوبائی پولیس چیف کے آفس میں بھی سنائی دی ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا پولیس اختر حیات گنڈاپور نے ڈی آئی جی انٹرنل اکاؤنٹیبلیٹی کی سربراہی میں اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔
کمیٹی کو پولیس جوانوں کو فراہم کردہ بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹس کے معیار سے متعلق مکمل تحقیقات کرکے ایک ہفتے کے اندررپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا پولیس اختر حیات گنڈاپور کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پولیس فورس کو جدید آلات و اوزار سے لیس کرنا اور پولیس جوانوں کو تحفظ دینا محکمہ کی اولین ذمہ داری ہے۔
اختر حیات گنڈا پور نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اپنے خون سے تاریخ رقم کرنے والی فورس کے شہدا کی لازوال قربانیوں اور محکمہ پولیس کی ساکھ پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔
تحقیقات میں پیش رفت
آئی جی خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے تشکیل کردہ ٹیم نے تحقیقات شروع کر تے ہوئے شہید اہلکاروں کی فائرنگ کے وقت زیر استعمال بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹس کا معائنہ کیا اور جائے وقوعہ کا بھی دورہ کیا ہے۔
پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو تصدیق کی کہ فائرنگ کے وقت دونوں شہید اہلکار بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے۔
’بلٹ پروف جیکٹس کے جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہید اہلکاروں کو انتہائی نزدیک سے نشانہ بنایا گیا ہے تاہم ابھی اس کا فورینزک جائزہ باقی ہے۔‘
مذکورہ پولیس افسر کے مطابق جائے وقوعہ اور جیکٹس سے ملنے والے شواہد سے پتا چلا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ایس ایم جی جیسے بھاری ہتھیار اور وہ بھی انتہائی قریب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
پولیس افسر نے گولیوں کے بلٹ پروف جیکٹس سے پار ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گولیاں سیدھی یا درمیان سے کراس نہیں ہوئیں بلکہ دو گولیاں جیکٹس میں پھنس گئی تھیں۔
’۔۔۔تاہم جیکٹس کے کونوں سے کراس ہونے والی گولیاں اہلکاروں کے جسم میں داخل ہوکر جان لیوا ثابت ہوئیں۔ ہیلمٹ سے گولیاں کراس نہیں ہوئی ہیں۔‘
پولیس افسر کے مطابق تحقیقاتی ٹیم تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ ٹیم نے جائے وقوعہ سے تمام شواہد حاصل کرلیے ہیں اور اب بلٹ پروف سامان کی خریداری کے وقت کی دستاویزات سے موازنہ کرکے رپورٹ تیار کی جائے گی۔
ماہر رائے کتنی مختلف ہے؟
سابق آئی جی خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ کی رائے اس حوالے سے کچھ مختلف ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صوبائی پولیس دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کے جدید اسلحہ سے لیس ہو کر فرنٹ لائن پر مقابلہ بھی کر رہی ہے۔
ان کے مطابق کافی عرصہ پہلے جب دہشتگردی اتنا بڑا عفریت نہیں بنا تھا غیر ملکی بلٹ پروف بکتر بند گاڑیاں پولیس کو دی گئی تھیں۔ جن سے بعد میں گولیاں گزرجانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگرد گولی کو ایک خاص کیمیکل سے treat کرتے تھے جس سے گولی آسانی سے کراس ہوجاتی تھی۔
سید اختر علی کے مطابق افغان جنگ کے دوران مکمل سپلائی کراچی سے افغانستان جاتی تھی اور اس دوران کنٹینرز کو لوٹ کر اسلحہ سمیت سامان لے کر فرار ہوجانا معمول کی بات تھی۔
’یہی وجہ ہے کہ دہشتگرد اب جدید اسلحے سے پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔‘
جدید اسلحہ اور بلٹ پروف سامان کی خریداری کے حوالے سے سابق آئی جی پولیس اختر علی شاہ نے بتایا کہ ایک کمیٹی مکمل مراحل کے بعد خریداری کی اجازت دیتی ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے ایک اور سینیئر افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ بلٹ پروف جیکٹس کے حوالے سے پولیس میں تشویش پائی جاتی ہے کیوں کہ کچھ عرصہ قبل بھی اس نوعیت کا انکشاف ہوا تھا جس پر خاموشی اختیار کی گئی۔
’ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ دہشتگرد جدید اسلحہ استعمال کر رہے ہیں، جو امریکی انخلا کے وقت طالبان کے ہاتھ لگے تھے۔‘
بلٹ پروف سامان اور گاڑیوں کی سیفٹی پر اس وقت بھی سوال اٹھے تھے جب گذشتہ ہفتہ لکی مروت میں ڈی ایس پی کو بکتر بند گاڑی میں نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں بلٹ پروف اے پی سی مکمل طور پر تباہ اور اس میں موجود ڈی ایس پی اور تین اہلکار شہید ہو گئے تھے۔
اب پولیس نے تمام تر تفصیلات سامنے لانے کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔
یادِ ماضی
دہشتگردی کی ان کامیاب وارداتوں میں پولیس انتظامیہ کی ناکامی کے پس منظر میں اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو سال 2013 میں خیبر پختونخوا پولیس کے لیے اسلحہ اور دیگر سامان کی خریداری کا بڑا اسکینڈل سامنے آنے پر نیب نے سابق آئی جی ملک نوید کو گرفتار بھی کیا تھا۔
قومی احتساب بیورو نے 2010-2008 کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا پولیس کے لیے اسلحہ اور دیگر سازوسامان کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
سال 2008 سے 2010 کے دوران اس وقت کی حکومت نے دہشتگردوں کے خلاف لڑائی اور صوبے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر سازو سامان خریدنے کے لیے سات ارب روپے جاری کیے تھے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے لیے خریدے گئے غیر معیاری اسلحہ کے معائنہ کے دوران اس رشوت وصول کرنے کا بھی انکشاف ہوا تھا۔