خیبرپختونخوا میں اپنی ہی حکومت پر کرپشن کا الزامات لگا کر شکیل خان کے صوبائی کابینہ سے استعفی کے بعد پارٹی میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے، جس کے بعد بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پارٹی میں اندرونی اختلافات اور کرپشن کے الزامات کو دیکھنے کے لیے سابق صدر عارف علوی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو ناراض رہنماؤں کے تحفظات بھی سنے گی۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا حکومت میں اختلافات: کیا وزیر اعلیٰ علی امین اعتماد کھو رہے ہیں؟
پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان نے عارف علوی کو خیبرپختونخوا کے علاوہ پنجاب میں پارٹی کے اندرونی اختلافات پر بھی تفصیلی رپورٹ دینے کی ذمہ داری دی ہے۔
کمیٹی میں کون کون شامل ہیں؟
مالاکنڈ سے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر شکیل خان نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کے چند دن بعد ہی اپنی صوبائی حکومت پر کرپشن کے الزامات لگا کراستعفی دیا تھا،جس کے جواب میں صوبائی حکومت نے مؤقف اپنایا تھا کہ شکیل خان کو عمران خان کی جانب سے تشکیل کردہ گُڈ گورننس کمیٹی کی سفارشات پر کابینہ سے فارغ کیا گیا، جس پر کرپشن کے الزامات تھے۔
شکیل خان کے استعفی کے بعد تحریک انصاف میں اختلافات کھل کر سامنے آئے، ایم این اے عاطف خان، جنید اکبر سمیت کئی رہنما کھل کر شکیل خان کی حمایت میں سامنے آئے۔
یہ بھی پڑھیں: شکیل خان کی برطرفی پر اختلافات نے عمران خان کو پریشان کردیا
ذرائع نے بتایا ہے کہ اختلافات کی خبریں عمران خان تک پہنچی تو انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو میڈیا پر بیان بازی سے منع کردیا اور سابق صدر عارف علوی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس میں سابق اسپیکر اسد قیصر اور عمر ایوب بھی شامل ہیں، کمیٹی کو خیبرپختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات کرکے رپورٹ عمران خان کو دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
شکیل خان خاموش کیوں ہیں؟
کرپشن کے الزامات لگا کر صوبائی کابینہ سے استعفی دینے والے شکیل خان بھی خاموش ہیں، انہوں نے عمران خان کی جانب سے عارف علوی کی سربراہی میں کمیٹی کی تصدیق کر دی۔ وی نیوز کے سوال پر انہوں نے بات کرنے سے انکار کیا اور صرف اتنا بتایا کہ ان کا استعفی اندرونی مسئلہ ہے جبکہ عارف علوی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کے خلاف گروپ بندی، عاطف خان نے خاموشی توڑ دی
باخبر ذرائع نے بتایا کہ شکیل خان استعفی دینے کے بعد اسمبلی فلور پر بات کرنا چاہتے تھے لیکن اسپیکر نے 2 بار اجلاس کو مؤخر کیا اور اس دوران شکیل خان کو عارف علوی کی جانب سے حتمی رپورٹ کے آنے تک معاملے پر بات نہ کرنے پر آمادہ کیا گیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ابھی تک عارف علوی کی سربراہی میں تشکیل کردہ کمیٹی نے شکیل خان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے، تاہم عارف علوی نے شکیل خان کو شفاف رپورٹ دینے کی یقین دہانی کی ہے، جس پر وہ پرامید ہیں۔
شکیل خان کو عمران خان سے ملنے نہیں دیا جا رہا
ذرائع نے بتایا کہ پارٹی میں شکیل خان ایمانداری کی وجہ سے مشہور ہیں اور وہ سخت اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کارکنان میں بھی بہت زیادہ مقبول ہیں۔ شکیل خان علی امین گنڈاپور کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نرمی پر بھی خوش نہیں ہیں اور کابینہ کے ساتھ کور کمانڈر ہاؤس اجلاس میں بھی نہیں گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے شیرافضل مروت کی پارٹی رکنیت ختم کردی، قومی اسمبلی کی نشست بھی چھوڑنے کا مطالبہ
کابینہ سے استفعی کے بعد شکیل خان عمران خان سے ملاقات کی کوششوں میں ہیں اور کئی بار اڈیالہ جیل گئے لیکن انہیں عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں ملی، شکیل خان نے وی نیوز کو بتایا کہ استعفی کے بعد ان کی عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے تاہم ان کی کوشش ہے کہ ان کی عمران خان سے ملاقات ہو تاکہ صورتحال سے بانی چیئرمین کو آگاہ کیا جاسکے۔
’اختلافات کی وجہ قائدین ہیں جن سے کارکنان بھی خوش نہیں‘
تحریک انصاف کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت پی ٹی آئی شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے، پنجاب میں بھی صورتحال خیبر پختونخوا سے مختلف نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا کابینہ میں اختلافات: ناراض رہنماؤں نے عمران خان سے کیا شکایات کیں؟
انہوں نے اختلافات کی ذمہ دار موجودہ پارٹی قیادت کو قرار دیا اور کہا کہ عمران خان تک مخصوص رہنماؤں کی رسائی ہے جبکہ ان س سب کو ملنے نہیں دیا جارہا، کارکنان کو شک ہے کہ عمران خان کو زمینی حقائق سے آگاہ نہیں کیا جارہا ہے، جبکہ کچھ قائدین مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی بیک ڈوررابطے میں ہوتے ہیں۔
’مقتدر حلقوں سے رابطے پر کارکنان ناراض ہیں جو اندرونی اختلافات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ عارف علوی بھی ناراض رہنماؤں کو شاید قائل نہ کر پائیں البتہ انہیں عمران خان کی رہائی تک صبر کرنے اور اختلافات کو ختم کرنے پر زور دے سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب کو عمران خان کے جیل سے نکلنے کا بیتابی سے انتظار ہے، لیکن نہیں معلوم کہ وہ دن کب آئے گا۔