جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینیئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت سے مزید سوچ وچار کے لیے وقت مانگا ہے، ہمیں ابھی تک آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں ملا، اگر حکومت اجلت سے کام لیتی ہے تو شاید ہم اسے سپورٹ نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں:آئینی ترامیم کے لیے نمبر گیم پوری ہے، اسحاق ڈار کا دعویٰ
اتوار کو حکومتی اور اپوزیشن وفود کی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتوں کے بعد عبدالغفور حیدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومتی وفد سے کھل کر کہا کہ آپ کو بہت جلدی ہے لیکن جب تک ہمیں آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں ملا تو ہم اس کے حق میں ووٹ کیسے دے سکتے ہیں؟۔
مزید پڑھیں: حکومت عدلیہ سے متعلق قانون سازی کے لیے نمبر پورے کرنے میں ناکام ہوگی، عمر ایوب کا دعویٰ
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ آپ ابھی آئین میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش نہ کریں، تاکہ ہم پہلے اس آئینی ترمیم کے بل کے مسودہ کو پڑھ لیں اوردیگراپوزیشن جماعتیں بھی پڑھ لیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دوست بھی تشریف لائے تو ان سے بھی ہم نے یہی بات کی ہے کہ ہم نے حکومت کو کہہ دیا ہے کہ بل پارلیمنٹ میں لانے میں جلدی نہ کریں، ہمیں اس کے مسودہ کو پڑھنے، سوچنے اور شرح صدرکے ساتھ فیصلہ کرنے کا موقع دیں۔
یہ بھی پڑھیں:مولانا اڑ گئے، حکومت کا قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس ملتوی کرنے پر غور
انہوں نے کہا کہ ہم قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنا مؤقف کھل کر سامنے رکھیں گے کہ آپ کو اتنی جلدی کس بات کی ہے؟، لہٰذا اگر آپ جلدی کر رہے ہیں تو ہم اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ اس کے حق میں ووٹ دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون سازی تو ملک اور قوم کے لیے کرنی ہے، ملک کا مستقبل قانون سازی پر مرتب ہونا ہے اور اگر اس قانون سازی کی دستاویزات، مسودہ مخفی ہو، اپوزیشن کو نہ ملے ہوں تو پھر اس قانون سازی پر انگلیاں تو اٹھیں گی۔
یہ بھی پڑھیں:آرٹیکل 63 اے کو اصل شکل میں لایا جائے گا، وفاقی وزیر قانون
اس سوال پر کہ جمعیت علمائے اسلام کے قانونی مشیر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ ہمیں آئینی ترمیم کا مسودہ مل چکا ہے اس پر مشاورت جاری ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ وہ بھول گئے ہوں گے، ہمیں ابھی تک مسودہ نہیں ملا، ہم بھی چاہتے ہیں کہ مسودہ ملے تو اس پر تمام فریقین کی مشاورت ہو۔
اگر اس مسودہ پر کوئی اتفاق رائے ہوتا ہے تو پھر بہت اچھی بات ہے اور اگر کسی جماعت کے کوئی تحفظات ہیں تو انہیں بھی دور کرنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے۔