یہ روشنی فریب ہے

پیر 16 ستمبر 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ روشنی فریب ہے

نہیں
یہ دل لگی نہیں
یہ روشنی فریب ہے
ابھی تو شب گئی نہیں
فصیلِ شہر پر ابھی
بہت چراغ چاہئیں
ابھی تو دستِ آز کو
لہو کے داغ چاہئیں
وہ صبحِ نَو ابھی کہاں!
نہیں نہیں ابھی نہیں

مذکورہ نظم زیست کو زندان قرار دینے والے سجاد لاکھا کے نظمیہ مجموعے ’یہ روشنی فریب ہے‘ کی اولین نظم ہے۔ کتاب کا عنوان بھی اسی نظم کی دَین ہے۔ چند دن قبل اشاعت پذیر ہونے والے اس شعری مجموعے کے اولین قاری کا اعزاز ملنا یقیناً شاعرِ بے مثل سجاد لاکھا کی بے لوث محبتوں کے مرہونِ منت ہے۔

سجاد لاکھا کار زارِ صحافت کے مسافر ہیں، طویل تر مسافت اور لفظوں کی دُھول میں اَٹ جانے کے بعد انہیں شعروں اور نظموں کو قالب میں ڈھالا، حیرت انگیز طور ان کا شعر کہنے کا ہنر پنجابی اور اردو زبان میں یکتا ہے۔ نظم دیکھئے ’نعمت‘:
ایسے حالات میں
جب لوگ
غلامی پہ خوش ہیں
خود سری کتنی بڑی نعمت ہے

نظم دیکھئے ’دہلیز‘:
دہلیز پہ
فوری اور سستے
انصاف کا کافی چرچا ہے
یہ مجھ کو
کون بتائے گا؟
جس شخص کے سر پر
چھت نہ ہو
دہلیز کہاں سے لائے گا؟

نظم دیکھئے ’فیصلہ‘:
خوں آشام
چمگادڑوں نے بالآخر
یہ طے کرلیا ہے
وہ الٹا لٹک کر
ہمیں سیدھا کرنے کی
کوشش کریں گی

منیر نیازی نے کہا تھا کہ میرا خوف ہی میری طاقت ہے، اس کے برعکس سجاد لاکھا نے خوف کا طوق پہنا ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ نہ کبھی ان کا قلم لڑکھڑایا اور نہ ہی ان کی سوچ کا دھارا کسی مصلحت کا شکار ہوکر آلودہ ہوا۔ لب و رخسار کے بجائے ان کے موضوعات حوادثِ زمانہ اور گرد وپیش میں مسائل کی ٹکٹکی پر بندھے گوشت پوست کے عام انسان ہیں، جنہیں سجاد لاکھا دھرتی کے مالک قرار دیتے ہیں۔ نظم دیکھئے ’رات باقی ہے‘:
سرد ہونے نہ دو اَلاؤ کو
گیت گاتے رہو بغاوت کے
رات باقی ہے، بات باقی ہے
وہ سحر تابناک، جس کے لیے
کتنی شمعوں نے لَو گنوائی ہے
جبر کی بے اماں ہواؤں نے
سر اتارے تھے جن چراغوں کے
ان چراغوں کی پھڑ پھڑاہٹ سے
اب بھی شاہوں کے دل لرزتے ہیں
گنگناؤ کہ رات باقی ہے
گیت گاتے رہو بغاوت کے

سجاد لاکھا نے کبھی الہام کی دعویداری کی اور نہ ہی بال پین کی صرصراہٹ کو نوائے سروش قرار دیا۔ دنیا باالخصوص وطن عزیز میں کہیں بھی، کبھی بھی انسانیت زد پہ آئی تو سجاد لاکھا کا قلم بلبلا اٹھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سسکیاں بھرتی نظمیں قاری کو مبہوت کردیتی ہیں۔ مجموعے میں شامل نظمیں ’پوجا کماری مقتولہ، کامریڈ یاسین ملک، بالا خانے، توہین عدالت، صہیونی جارحیت، فوٹو جرنلسٹس، نیا مفہوم، بتوں کی شوریٰ، تماشا‘ وغیرہ اسی تہمید کی مظہر ہیں۔ نظم ’سانحہ سیالکوٹ‘ دیکھئے:
یہ درندوں کا دیس ہے صاحب!
صرف شکلیں ہیں آدمی جیسی
ظلم جب ہورہا تھا دھرتی پر
یہ ریاست خلا میں تھی شاید

سجاد لاکھا نے 9 ستمبر 2024 کو ’یہ روشنی فریب ہے‘ عنایت کی، حُسنِ اتفاق دیکھئے کہ ٹھیک 5 برس قبل 2019 میں اسی تاریخ کو انہوں نے کتابی چہرے ’فیس بک‘ پر ایک پوسٹ لگائی تھی۔ جس میں ایک کشمیری طالبہ کو قابض بھارتی افواج سے برسرپیکار دکھایا گیا تھا۔ سجاد لاکھا نے کیپشن لکھا تھا ’ہاتھ میں اِک سنگ لازم ہے‘۔ پھر ان کی وہی حساس کیفیت، نظم ’ایک پتھر‘ کی صورت اختیار کر گئی:
کوئی چارہ نہیں
اب اس کے سوا
وقت کے ابرہہ سے لڑنا ہے
اتنے عشروں سے
تم نے دیکھ لیا
آسمانوں سے کچھ نہیں اترا
کند ذہنو!
سبب سمجھ جاؤ
زد پہ انسانیت ہے، کعبہ نہیں
خودا بابیل کیوں نہیں بنتے؟
ایک پتھر تو
مل ہی جائے گا

سجاد لاکھا شوقِ سفر کے باوجود نہیں جانتے کہ ان کے پاؤں میں کس مسافت کے آبلے ہیں؟ وہ دہکتے رخساروں، نشیلی آنکھوں اور شانے پہ دستک دیتی زلفوں سے بے نیاز، رت جگے کاٹ کاٹ کر اپنی نظموں کے لیے رستے بناتے رہے۔ نظم ’غم کی رات‘ اور ’نیند سوئی‘ کتنی آسانی سے سنا دیے گئے بین کرتے نوحے ہیں۔ دیکھئے نظم ’نیند سوئی‘:
شب
ایک مدت کے بعد
آنکھوں میں نیند سوئی
اور اس سے پہلے
تمام سپنے اٹھا کے پھینکے
بڑے سلیقے سے فرش دھویا
میں کھل کے رویا

نظم دیکھئے ’بے بسی‘:

اس بت کا گماں رکھتا
آنکھوں میں تو آنسو تھے
میں خواب کہاں رکھتا!

سجاد لاکھا کہتے ہیں ’ہمیں تعظیم دو، ہم ہیں تو تم بھی ہو، کہ جبر اور صبر اب مدِ مقابل آ چکے ہیں۔‘ سجاد لاکھا اپنی نظموں کے ذریعے معاشرتی ناہمواریوں، نا انصافی، جبر و استبداد اور استحصال کو بے خوف و خطر للکارتے ہیں۔ نظم دیکھئے ’دھوپ‘:
دھوپ نکلی تو تھی
صبح آزادی کے رنگ پھیکے رہے
اس سے پہلے
بہار اپنے جوبن پہ ہو
ڈالی ڈالی کو اک مرگِ بوسہ ملا
سائے گہرے ہوئے
خوش نما تتلیوں کی بصارت گئی
جتنے جگنو تھے
چن چن کے مارے گئے
ہم پہ اپنے ہی لشکر اتارے گئے
دھوپ نکلی تو تھی
بھاری بوٹوں تلے آکے کچلی گئی

نظم دیکھئے ’چُپ‘:
اب اس پہ کون سالگتا ہے زور چُپ کیوں ہو؟
جگائے رکھنا بھی کافی ہے پہرے داروں کو
مچاتے کیوں نہیں زنداں میں شور چُپ کیوں ہو؟

’یہ روشنی فریب ہے‘ میں کڑے انتخاب کے بعد 114 نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ کتاب کو ناشر ارحم لون نے کاشر پبلیکیشنز (9008040۔0314) کے زیر اہتمام شائع کیا ہے۔ مجموعے کا انتساب ’حریت پسندوں کے نام‘ ہے۔ سجاد لاکھا کا قاری ہونے کے ناتے راقم کو اس مجموعے کا شدت سے انتظار تھا۔ اس ضمن میں صحافی دوست ازور لون کی بیش بہا کاوشیں قابلِ ذکر ہی نہیں قابل ستائش ہیں۔ نظم دیکھئے ’حساب‘:
تم کو لگتا ہے ہم فقیروں کا
اب بھی کوئی حساب ہونا ہے؟
یہ جو اتنے خدا مسلط ہیں
یہ تماشا نظر نہیں آتا؟
رزق بھیجا کسے، ملاکس کو؟
دیکھ! لوگوں کے ہاتھ پھیلے ہوئے
اے مقدر تراشنے والے!
اب یہ لوح و قلم کا کیا ہوگا؟

بانکے شاعر سجاد لاکھا کی طبیعت کے مطابق کتاب کی بہت سی خصوصیات بھی ہیں کہ کوئی رنگا رنگ سرورق نہیں، نہ ہی نظموں کی طویل فہرست اور نمبر شمار کی الجھن۔ نہ ہی کسی نقاد یا معروف شاعر سے پیش لفظ لکھوا کر کتاب کو کسی قسم کی بیساکھی فراہم کی گئی۔ سجاد لاکھا نے جو کچھ کہا، عام آدمی کے لیے کہا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے مجموعہ ان ہی کے سپرد کردیا۔

اعزاز کی بات ہے کہ ’یہ روشنی فریب ہے‘ کا واحد رنگین سرورق راقم کو عنایت کیا گیا ہے۔ سرورق پاکستان کے معروف مصور ’عجب خان‘ نے بنایا ہے، جنہیں مصورِ اقبال کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لاکھوں میں ایک سجاد لاکھا کے قارئین کے لیے کتاب کا رنگین سرورق دوسری اشاعت میں شامل کیا جائے گا۔ نظم دیکھئے ’اختتام‘:
تماشا آخری ہے یہ سمجھ لو!
سبھی کردار ننگے ہوچکے ہیں
بس اب پردہ گرانا رہ گیا ہے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp