جیکب آباد میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا، دن دہاڑے ایک گینگ نے پولیو ورکر کو یرغمال بنا کر نہ صرف اس کا ریپ کیا بلکہ ویڈیو بھی بنائی۔ اتنا سب کچھ ہوا مگر پولیو مہم کو کامیاب بنانے کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ کو خبر ہوئی نہ ان کی حفاظت پر مامور پولیس کو۔ متاثرہ خاتون نے خود پولیس کو اطلاع دی جو فوراً موقع پر پہنچی۔ ابتدائی رپورٹ بھی درج کی گئی، جس میں وقوعہ کو جنسی زیادتی کے بجائے چوری کی واردات قرار دیا گیا۔
ویمن ایکشن فورم کے مطابق پولیس نے خاتون کو پریشان کیا اور اسے جنسی زیادتی کی بات باہر نہ کرنے کا دباؤ ڈالا۔ خاتون کو سیف ہاؤس میں رکھا گیا، لیکن اس کی حفاظت کے لیے نہیں، بلکہ سچ کو دبانے کے لیے۔ پولیس نے تحفظ فراہم کرنے کے بجائے، واقعے کو چھپانے اور متاثرہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بہادری کے ساتھ خاتون نے ڈٹ کر عدالت کے سامنے اپنی جنسی زیادتی اور تشدد کی کہانی دوبارہ بیان کی۔
اس سے قبل بھی پولیو ورکرز کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن پاکستان جیسے ‘پاک سماج’ میں بات جنسی زیادتی تک جا پہنچے گی، یہ نہیں سوچا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے پولیس کی موجودگی ضروری ہے، کیونکہ پولیو مہم کے دوران کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ لیکن جب پولیس اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا نہیں کرتی اور متاثرہ کو خاموش کرانے کی کوشش کرتی ہے، تو یہ نہ صرف نظام انصاف کی ناکامی ہے بلکہ انسانیت کی توہین بھی ہے۔
ابھی اس خاتون نے زیادتی اور ناانصافی کا صدمہ برداشت ہی نہیں کیا تھا کہ اس کے شوہر کی مرادنگی کو جاگ اٹھی اور اس نے غیرت کے نام پر گھر سے نکال دیا۔ متاثرہ خاتون نے پولیس کو بہان دیا ہے کہ ان کے شوہر اور دیور نے انہیں قتل کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ جنسی زیادتی اس عورت کے ساتھ ہوئی اور کردار کا الزام بھی اسی عورت کے سر آیا۔ عزت کا سوال تو انصاف فراہم کرنے والے اداروں اور خود شوہر پر ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ سب اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکے۔ کہنے کو ہم ایک ‘پاک مملکت’ کے ایک ‘پاک سماج‘ میں رہتے ہیں مگر عملی طور پر یہاں رویوں کو بھی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ دن پہلے پی ٹی آئی کے جلسے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنی تقریر میں خواتین صحافیوں کے بارے میں انتہائی غیر اخلاقی اور عورت دشمن زبان استعمال کی۔ وہ اس زبان کا استعمال بڑے سکون کے ساتھ کر رہے تھے اور داد بھی وصول کر رہے تھے۔ اس تقریر کو سن کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہر اس خاتون کے لیے ہر قسم کی غیر اخلاقی زبان استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں جو خودمختار ہو اور آزادی اظہار رائے اور دیگر اہم باتوں کی سمجھ بوجھ رکھتی ہو۔ بیشتر مردوں نے خود سے ہی فرض کیا ہوا ہے کہ عورت کی جگہ صرف گھر کی چاردیواری میں ہے اور باہر کی دنیا پر پورا حق مرد کا ہے۔
یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ جب وزیر اعلیٰ کی حیثیت رکھنے والا شخص اس نوعیت کی سوچ رکھتا ہو، تو عام لوگوں کی سوچ کیا ہوگی؟ اور ایسے حالات میں ایسی باتیں کرنا جب ملک کی زیادہ تر خواتین تحفظ کے خدشات کی وجہ سے پہلے ہی ملک کی معیشت کا حصہ نہیں ہیں۔
یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ یہ ملک عورتوں کے لیے ایک غیر محفوظ جگہ ہے۔ شاید ہم اس بات کو قبول بھی کر چکے ہیں اور اس صورتحال کو بدلنے کا ہمارا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ البتہ اگر اس صورتحال سے کسی کو فائدہ پہنچے، جیسے کہ علی امین گنڈا پور نے اختلاف رائے پر ہر اس عورت کی کردار کشی کی جو رزق حلال کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے، تو یہ بھی قابلِ غور ہے۔