عدلیہ میں محاذ آرائی کیوں ہے اور اس محاذ آرائی کا انجام کیا ہو گا؟ یہ سوال آج کل ہر پاکستانی کی زبان پر ہے۔ اس گتھی کو سلجھانے کےلیے وی نیوز نے پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا سے بات کی جس پر انہوں نے موجودہ صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وکلا کی تجویز پر اگر فل کورٹ تشکیل دے دی جاتی تو معاملات اس نہج پر نہ پہنچتے۔
حسن رضا پاشا کا یہ بھی خیال ہے کہ صورتحال کوئی بھی رخ اختیار کرے اس مسئلے کو بالآخر جانا ایک مرتبہ پھر عدالت میں ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے مستقبل کے حالات کافی مخدوش نظرآتے ہیں لیکن جو بھی صورتحال ہو معاملہ ایک بار پھر عدالت ہی میں آئے گا۔‘
چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی، پاکستان بار کونسل کا کہنا تھا کہ ججوں میں عدالت عظمٰی کے ججز میں اختلافات آئینی نوعیت کے تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ہی معاملہ کچھ ذاتی اختلافات کا بھی ہے۔
حسن رضا پاشا الیکشن التوا؎ کیس کی 31 مارچ کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ اس سے پہلے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس مقدمے کی سماعت سے معذرت کر چکے تھے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی ازخود نوٹس مقدمات کی سماعت روکنے سے متعلق ایک تحریری حکم نامہ جاری کرچکے تھے۔
اکتیس مارچ کی صبح الیکشن التوا کیس کی سماعت جاری رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کو قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے کو غیر موٗثر کرنا تھا جس کے لیے عدالت کے رجسٹرار نے ایک سرکولر جاری کیا جس کی رو سے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے کا اطلاق غیر موٗثر ہو گیا لیکن اس سارے عمل میں سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے۔
جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے درخواست کی کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں لہٰذا ہمیں بتایا جائے کہ ہم ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو تجویز دی تھی کہ اگر فل کورٹ نہیں بنائی جاتی تو کم ازکم ایک فل کورٹ اجلاس ہی کرلیا جائے۔
ججز کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ اختلافات آئینی اور قانونی نوعیت کے بھی ہیں اور ہونے بھی چاہییں لیکن کچھ ذاتیات کا عمل دخل بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز بھی انسان ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی رائے کی اہمیت ہونی چاہیے۔ ان اختلافات سے بچنے کے لیے ہی بار کونسلز نے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ حسن رضا پاشا نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے مقدمے میں فل کورٹ کا مطالبہ کرنے والوں میں وہ خود اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدربھی شامل تھے بلکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے چھ سابقہ صدور اور پاکستان بار کونسل کے پانچ ممبران ایک ہائی پاور وفد کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اور استدعا کی کہ یہ آئینی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملہ بھی ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس کے لیے ایک فل کورٹ بنائی جائے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ درخواست رد کردی گئی۔
حسن رضا پاشا نےکہا کہ تاریخ نے تو ثابت کردیا کہ بار کونسلز کا مطالبہ درست تھا اور اگر اس پر عمل کیا جاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ معاملات اس طرح آسانی سے چل سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ایک فریق خوش ہے اور شادیانے بجا رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی جیت ہوئی ہے جبکہ حکومتی اتحادی کو اس پر شدید اختلاف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے فیصلہ نہ ماننے کی بات بھی توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتی کیوں کہ روز مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں ایک فریق کو اس پر اختلاف ہوتا ہے اور وہ اپیل میں چلا جاتا ہے۔
حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ جس طرح کہا جا رہا ہے کہ سنہ 1997 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور جس طرح جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت کے ساتھ ہوا لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اب ایسا ہونا ممکن ہے۔ حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ ججز کے درمیان تفریق اور مخاصمت اور زیادہ بڑھے گی اور معاملات ایک بار پھر سےعدالت میں جائیں گے۔
انہوں نے ایک بار پھر اپنی تجویز دہراتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنائی جائے تاکہ اس ملک کے لیے کوئی بہتری کی صورت پیدا ہوسکے۔