چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عدالتی نظام درست کرنے کے لیے آئینی ترمیم وقت کی ضرورت ہے، آئینی عدالت کا مینڈیٹ آئینی معاملات کی تشریح ہوگا۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے الفاظ آج تک یاد کرتا ہوں کہ اگر ججز نے سیاست کرنی ہے، مجھ سے بات کرنی ہے اور جلسے جلوس نکالنے ہیں تو ججز پارٹی بنائیں، باقاعدہ سیاست میں آئیں اور مجھ سے بات کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بلاول بھٹو زرداری آج بھی نوجوانوں کی سیاست کرنے کے بیان پر قائم ہیں؟
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بینظیر بھٹو کہتی تھیں کہ اگر ہم عدالت کو سیاست کے اندر استعمال کریں گے تو اس کا نقصان جمہوریت، آئین اور سب سے بڑھ کا عوام کا نقصان ہوگا، اٹھارویں ترمیم بھی بینظیر بھٹو کا وعدہ تھا، بینظیر کہتی تھیں کہ وہ آمریت ختم کرکے جمہوریت واپس لائیں گے، پارلیمان کی بالادستی لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بیٹی کے طور پر ناانصافی دیکھی کہ ان کے والد کا عدالتی قتل ہوا اور عدالتوں سے انہیں انصاف نہیں ملا، بینظیر بھٹو نے کہا کہ جوڈیشنل ریفارمز ہونی چاہئیں، محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ منصوبہ بنایا کہ اگر ہم نے عوام کو انصاف دینا ہے، عدالتی نظام درست کرنا ہے تو پھر آئینی عدالت قائم کرنا ہوگی، جس کی ذمہ داری آئینی معاملات کی تشریح کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کی صدر زرداری کی سالگرہ پر جشن کی تیاریاں، سوشل میڈیا صارفین بھڑک اٹھے
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم دنیا کے دیگر ممالک کو دیکھتے ہیں جیسے امریکا میں پارلیمان آئینی عدالت کے ججز کا باقاعدہ انٹرویو کرتے ہیں، اس بات سے نہیں کہ وہ کون سے سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انٹرویو لیا جاتا ہے کہ قانون کے مطابق آپ کا فلسفہ کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب میاں نواز شریف کی حکومت تھی تو 58-2b جو پیپلز پارٹی نے صدر سے لے لیا تھا، پہلے وہ افتخار چوہدری کے پاس گیا، اس نے گیلانی کے خلاف استعمال کیا، پھر وہ کھوسہ کے پاس گیا، اس نے میاں صاحب کے خلاف استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو اپنے والد کے انصاف کے لیے 50 سال انتظار کرنا پڑا، 50 سال بعد اس کیس کا فیصلہ سنانے والے عدالتی بینچ بشمول چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، مگر کیا اگر ایک سابق وزیراعظم جس کی بیٹی بھی وزیراعظم ہو، وہ 30 سال جہدوجہد کرے، پھر صدر زرداری نے ریفرنس بھیجا، پھر بھی 10 سال انتظار کرنا پڑا تو عام آدمی کو کتنا انتظار کرنا پڑتا ہوگا، چوری، قتل کے مقدمے میں کیا لوگوں کو 50،50 سال کا انتظار کرنا پڑےگا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئی مثال نہیں ملتی کہ دنیا میں کہیں کبھی آئینی ترمیم بل خفیہ رکھے جاتے ہوں، حامد خان
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 50 فیصد کیس آئینی ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں 50 فیصد کیسز کو 90 فیصد وقت ملتا ہے، حکومت اور اتحادیوں سے مشورہ کر کے ایسی عدالت بنائیں جہاں ڈیم نہ بنائے جائیں یا ٹماٹر کی قیمتیں نہ طے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر ہائی کورٹ ججز، وکلا سے مشاورت کرکے ابھی نہیں تو آگے جاکر الگ عدالت بناسکتےہیں۔
انہوں نے کہا جب میثاق جمہوریت کیاگیا، اس وقت افتخار چوہدری پی سی او کے تحت مشرف کی عدالت کا جج تھا، اس وقت انہوں نے سوچا کہ اگر ہم نے عوام کو انصاف دلانا ہے، عدالتی نظام کو درست کرنا ہے تو آئینی عدالت بنانی پڑے گی۔