قبائلی خواتین کس قسم کے مقدمات کے لیے عدالت جاتی ہیں؟

اتوار 22 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فاٹا انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں فیصلے مقامی مشران کرتے تھے، جسے جرگہ سسٹم کہا جاتا ہے اور اس جرگہ سسٹم سے زیادہ تر لوگ مطمئن بھی ہوتے ہیں، لیکن انضمام کے بعد فاٹا میں تقریباً 20 سے 25 ادارے آچکے ہیں، ان میں سے بڑا اور اہم ادارہ عدالت بھی ہے۔

قبائلی اضلاع میں عدالتی نظام کے ساتھ مقامی لوگ ابھی تک مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہوسکے ہیں، جس کی بڑی وجہ عدالتی نظام کی کارکردگی کا غیرتسلی بخش ہونا بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سابقہ فاٹاکو حکمرانوں کی توجہ کی ضرورت ہے

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ بشیر صافی نے کہا کہ فاٹا انضمام سے پہلے سابقہ فاٹا میں فیصلے مقامی جرگے کے ذریعے ہوتے تھے اور فاٹا میں2 قسم کے جرگہ سسٹم تھے، ایک وہ جو علاقے کے مشران پر مشتمل ہوتا تھا، مقامی لوگ اپنا اختیار ان مشران کو سونپ دیتے، اس جرگے میں زیادہ تر مقامی اور چھوٹے لیول کے مسائل پہ بات ہوتی تھی۔

دوسرا جرگہ فاٹا انتظامیہ کے تحت کام کرتا تھا جس کو اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹس لیڈ کرتے تھے، جو آزادانہ طور پر کام نہیں کرتے تھے، اب فاٹا انضمام کے بعد عدالتیں آئی ہیں۔

بشیر صافی کے مطابق فاٹا میں مقامی مشران پر مشتمل جرگے اب بھی ہوتے ہیں لیکن لوگ زیادہ تر فیصلے عدالتوں سے کرواتے ہیں۔

فاٹا میں عدالتیں آنے کے بعد ہرکسی کے پاس یہ سہولت موجود ہے کہ وہ اپنے فیصلے آئین پاکستان کی دستور کے مطابق کریں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا سابقہ فاٹا پھر سے فاٹا بنے گا؟

جرگہ نظام میں یہ خامی ضرور تھی کہ اس میں خواتین کی شمولیت نہیں تھی جس کی وجہ سے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے موزوں پلیٹ فارم نہیں تھا، فاٹا انضمام کے بعد خواتین کو بھی اپنے مسائل حل کرنے کے لیے عدالت کی شکل میں ایک پلیٹ فارم مل گیا ہے۔

اس حوالے سے مہمند بار ایسوسی ایشن کی واحد خاتون وکیل ایڈووکیٹ رخسانہ مہمند کا کہنا ہے کہ بحیثیت ایک خاتون وکیل ان کے لیے بھی شروع میں قبائلی روایت کے برخلاف مردوں کے ساتھ کام کرنے میں کافی مشکل تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آگئی ہے اور مقامی خواتین بھی اپنے مسائل عدالت لے کر آتی ہیں۔

ایڈووکیٹ رخسانہ نے بتایا کہ قبائلی لوگوں کو عدالت کے بارے میں بدگمانی تھی کہ اب ان کی عورتیں خلع اور علیحدگی کے کیس لے کر عدالت جائیں گی، اس وجہ سے وہ عدالتوں سے خائف تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا سابقہ فاٹا کو 10 سالوں میں دیے گئے 417 ارب روپےکی تحقیقات کا فیصلہ

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر قبائلی خواتین جائیداد میں اپنا وراثتی حصہ لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں کیونکہ ان علاقوں میں خواتین کو ان کا حصہ دینے کا رواج نہیں تھا جس کے خلاف وہ جرگے میں بھی انصاف کے حصول کے لیے نہیں جاسکتی تھیں۔

قبائلی ضلع مہمند کی واحد خاتون وکیل کے مطابق قبائلی خواتین اب وراثت میں اپنا حصہ لینے کے لیے عدالتوں کا رخ کرتی ہیں، علیحدگی یا خلع کے بھی چند کیس عدالتوں میں آتے ہیں لیکن وہ صلح صفائی سے یا باہمی بات چیت سے حل ہو جاتے ہیں،علیحدگی کے کیسوں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

’خواتین کی جانب سے داخل کیے گئے کل کیسز میں سے 80 فیصد کیسز وراثت کے ہیں، کرمنل کیسز میں بھی خواتین عدالت آتی ہیں کیوں کہ یہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور جب لڑائی جھگڑا ہوتا ہے تو یا تو وہ متاثرین میں سے ہوتی ہیں یا پھر ملزمان میں سے، دونوں صورتوں میں انہیں کرمنل کیس میں عدالت آنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قبائلی خواتین وراثت سے محروم کیوں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ان تمام خواتین کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اگر انہیں کوئی مسئلہ ہے تو وہ ضرورعدالت کا رخ کریں۔

دوسری جانب مقامی لوگ بھی باقی ملک کی طرح عدالتی کارروائیوں سے زیادہ خوش اس لیے نہیں دکھائی دیتے کیونکہ جرگہ سسٹم کے برعکس عدالت کا طریقہ انصاف انتہائی سست ہے، جس کی وجہ سے ان کا مالی نقصان کے ساتھ وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp