سائنسدانوں نے 50 سال کے بعد انسان کے جسم میں پائے جانے والے ایک نئے بلڈ گروپ کو دریافت کر لیا ہے، ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ 99.9 فیصد سے زیادہ افراد میں اے این ڈبلیو جے اینٹیجن موجود ہوتا ہے تاہم یہ 1972 کی ایک مریض خاتون کے خون سے غائب تھا۔ یہ اینٹیجن مائلین اور لمفوسائٹ پروٹین پر رہتا ہے ، جس کی وجہ سے محققین نے نئے بیان کردہ نظام کو ’ایم اے ایل‘ بلڈ گروپ کا نام دیا ہے۔
سائنس جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق1972 میں جب ایک حاملہ خاتون کے خون کے نمونے لیے گئے تو ڈاکٹروں کو پتہ چلا کہ اس میں پراسرار طور پر ایک لیول کا مالیکیول جو اس وقت خون کے دیگر تمام معلوم سرخ خلیات پر پایا جاتا تھا، غائب تھا۔
50 سال بعد اس عجیب و غریب مالیکیول کی غیر موجودگی نے بالآخر برطانیہ اور اسرائیل کے محققین کو انسانوں میں بلڈ گروپ کے ایک نئے نظام کی وضاحت کرنے پر مجبور کیا۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی ہیماٹولوجسٹ لوئس ٹیلی کا کہنا ہے کہ ‘یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور بلڈ گروپ کا نیا نظام دریافت کرنے اور اس نایاب گروپ کے مریضوں کو بہترین دیکھ بھال فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ہم سب اے بی او بلڈ گروپ سسٹم اور ریسس فیکٹر (پلس یا مائنس) سے زیادہ واقف ہیں ، لیکن انسانوں کے جسم میں اصل میں بہت سے مختلف بلڈ گروپ سسٹم ہیں جو سیل کی سطح کے پروٹین اور شکر کی وسیع اقسام پر مبنی ہیں جو ہمارے خون کے خلیات کو کور کرتے ہیں۔
ہمارے جسم ان اینٹیجن مالیکیولز کو اپنے دوسرے مقاصد کے علاوہ شناختی نشانات کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔
زیادہ تر بڑے خون کے گروپوں کی نشاندہی 20 ویں صدی کے اوائل میں کی گئی تھی۔2022 میں محققین کی جانب سے پہلی بار بیان کیے گئے۔
اس سے قبل ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ 99.9 فیصد سے زیادہ افراد میں اے این ڈبلیو جے اینٹیجن موجود ہے جو 1972 کی حاملہ خاتون مریض کے خون سے غائب تھا۔ یہ اینٹیجن مائلین اور لمفوسائٹ پروٹین پر رہتا ہے ، جس کی وجہ سے محققین نے نئے بیان کردہ نظام کو ایم اے ایل بلڈ گروپ کا نام دیا ہے۔
یونیورسٹی آف ویسٹ آف انگلینڈ کے سیل بائیولوجسٹ ٹم سیچویل کا کہنا ہے کہ ‘ایم اے ایل ایک بہت چھوٹا پروٹین ہے جس میں کچھ دلچسپ خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے اس کی شناخت کرنا مشکل ہو گیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس بلڈ گروپ سسٹم کو قائم کرنے کے لیے درکار ثبوت جمع کرنے کے لیے کئی طرح کی مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ انسان کے پاس صحیح جین ہے، دہائیوں کی تحقیق کے بعد ، ٹیم نے خون کے خلیات میں عام ایم اے ایل جین داخل کیا۔ اس نے مؤثر طریقے سے ان خلیوں کو اے این ڈبلیو جے اینٹیجن پہنچایا۔
ایم اے ایل پروٹین خلیوں کی جھلیوں کو مستحکم رکھنے اور خلیوں کی نقل و حمل میں مدد کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ، پچھلی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اے این ڈبلیو جے اصل میں نوزائیدہ بچوں میں موجود نہیں ہے لیکن پیدائش کے فوراً بعد ظاہر ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مطالعے میں شامل تمام اے این ڈبلیو جے منفی مریضوں میں ایک ہی میوٹیشن کا اشتراک کیا گیا۔ تاہم اس تبدیلی کے ساتھ کوئی اور خلیوں کی خرابی یا بیماریاں وابستہ نہیں پائی گئیں۔
اب جبکہ محققین نے ایم اے ایل میوٹیشن کے پیچھے جینیات کی نشاندہی کی ہے، مریضوں کو یہ دیکھنے کے لیے ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے کہ آیا ان کے منفی ایم اے ایل خون کی قسم کی وراثت میں ملی ہے یا دباؤ کی وجہ سے ہے۔