ماہر ارضیات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مغل کے مطابق مظفرآباد شہر کے بیچوں بیچ بہنے والے دونوں دریا قیمتی سرمایہ ہیں، کیوں کہ ان دریاؤں کی ریت میں قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں۔
انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’اس ریت میں سیاہ رنگ کی بھاری معدنیات ہیں جس کو کالا سونا بھی کہا جاتا ہے۔یہ ایسی معدنیات ہیں جو سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔
یہ بھی دیکھیں:’کشمیری گوشتابہ‘ کیوں مشہور ہے؟
ڈاکٹر سلیم مغل کے مطابق ہماری صنعت کا انحصار ان ہی بھاری معدنیات پر ہے اور اس کو نئے طریقے سے ریت سے الگ کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دریاؤں کا بہاؤ چٹانوں کی توڑ پھوڑ کرتا ہے اور پہاڑوں کے ان ٹوٹے ذرات کو دریا ریت کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم مغل کا کہنا ہے دریائے نیلم مختلف طرح کی چٹانوں سے گزرتا ہے، اس لیے اس کی ریت میں معدنیات کی زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں، جبکہ دریائے جہلم زیادہ چٹانوں سے نہیں گزرتا اس لیے اس کی ریت میں معدنیات کی اقسام کم ہیں۔
ڈاکٹر سلیم مغل کے مطابق گھروں کی تعمیر کے لیے ان دریاؤں سے جو ریت نکالی جاتی ہے اس میں یہ قیمتی معدنیات شامل ہوتی ہیں، لیکن لوگوں کو اس بارے میں معلوماتنہیں ہیں۔
ڈاکٹر سلیم مغل مغل کا کہنا ہے کہ لوگ سردیوں میں بند باندھتے ہیں اور گرمیوں میں ریت نکال کر تعمیرات کے لیے استعمال کرتے ہیں جو لوگوں کے لیے بہترین روزگار ہے۔
یہ بھی دیکھیں:برطانوی خواتین مظفرآباد کی سڑکوں پر رکشے کیوں چلا رہی ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اگر اس ریت سے بھاری معدنیات الگ کی جائیں تو یہ صعنتوں میں استعمال ہوسکتی ہیں اور آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی آمدنی ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اس ریت سے بھاری معدنیات الگ کرکے تعمیرات کے لیے استعمال کی جائے تو اس ریت کی تعمیری پائیداری بڑھ جائیگی۔
ڈاکٹر سلیم مغل کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں ریت کی بھی کمی ہوگی۔
یہ بھی دیکھیں:مظفرآباد: سحرش نے محض 2 ہزار روپے سے ایک کامیاب کاروبار کیسے شروع کیا؟
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس ریت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے یہ ریت ہمارے لیے سونے سے کم نہیں ہے۔