فوجی افسر کی منگیتر پر پولیس کا جنسی تشدد، بھارت میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی

منگل 24 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت میں ایک پولیس اسٹیشن کے اندر اہلکاروں کے ایک خاتون کے ساتھ جسمانی اور جنسی تشدد کے واقعہ پر ملک بھر میں شہری سراپا احتجاج ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق، یہ واقعہ بھارت کی مشرقی ریاست اوڈیشہ کے ریاستی دارالحکومت بھوبنیشور میں ایک 32 سالہ نوجوان خاتون وکیل کے ساتھ پیش آیا ہے جو وہاں ایک ریسٹورنٹ چلاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد نرس بھی زیادتی کا شکار

خاتون کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں انہیں وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، ان کے گردن کے گرد کالر اور بازو پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ ویڈیو میں واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے خاتون نے بتایا کہ یہ واقعہ 15 ستمبر کی رات پیش آیا۔

اس رات کیا ہوا؟

انہوں نے بتایا کہ وہ رات ایک بجے ریسٹورنٹ بند کرکے اپنے منگیتر، جو ایک فوجی افسر ہے، کے ساتھ جارہی تھی کہ راستے میں اوباش نوجوانوں کے گروہ نے انہیں ہراساں کیا، جس کی شکایت درج کرانے کے لیے وہ بھرت پور پولیس اسٹیشن گئے اور پولیس سے کارروائی کی درخواست کی۔

پولیس کے انکار پر خاتون نے بتایا کہ وہ ایک وکیل ہے اور اپنے حقوق جانتی ہے، اس بات پر تھانے میں موجود اہلکار طیش میں آگئے اور خاتون اور اس کے منگیتر کو تھانے میں بند کرکے ان پر تشدد شروع کردیا۔ خاتون نے الزام لگایا ہے کہ اس پر 2 خواتین اہلکاروں نے تشدد کیا جبکہ مرد اہلکاروں نے اس کے کپڑے پھاڑ کر نازک حصوں پر تشدد کیا اور ریپ کی دھمکیاں دیتے رہے۔

پولیس کیا کہتی ہے؟

دوسری جانب، گزشتہ ہفتے میڈیا میں پولیس کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ خاتون اور اس کے ساتھ موجود آرمی افسر اس رات جب تھانے میں آئے تو وہ شراب کے نشے میں دھت تھے، خاتون وکیل غصے میں تھی اور اس نے ایک خاتون پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا جبکہ ایک اہلکار کو دانتوں سے کاٹا۔

ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پولیس رویے پر تنقید کی تھی اور خاتون کو 3 دن بعد ضمانت پر رہا کردیا تھا۔ عدالت نے واقعہ میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کارروائی کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔

خاتون ریٹائرڈ برگیڈیئر کی بیٹی ہے؟

بی بی سی کے مطابق، متاثرہ خاتون کے والد ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر جو اس رات اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے تگ و دو کرتے رہے لیکن انہیں اگلے روز اپنی بیٹی سے ملنے دیا گیا۔ انہوں نے اوڈیشہ حکومت سے انصاف کی اپیل کی ہے۔

واقعہ کے خلاف انڈین آرمی نے اوڈیشہ حکومت کو خط لکھا ہے اور ایک حاضر سروس افسر کو بغیر کسی وجہ کے 14 گھنٹے تک تھانے میں رکھنے پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

واقعہ پر عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اوڈیشہ حکومت نے 3 خواتین سمیت 4 پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا ہے جبکہ ایک اہلکار کا تبادلہ کردیا ہے۔ حکومت نے واقعہ کی مکمل انکوائری کے لیے ہائیکورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو نامزد کیا ہے جو اپنی رپورٹ 60 دن کے اندر جمع کرائیں گے۔

متاثرہ خواتین اب کہاں جائیں گی؟

وکیل اور خواتین کی حقوق کی کارکن نمرتا چڈھا کا کہنا ہے اگر ایک خاتون غصے میں بھی پولیس اسٹیشن جاتی ہے تو اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ پہلے اسے پرسکون کریں اور پھر اس کی بات توجہ سے سنیں، لیکن اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ پولیس نے اپنی بنیادی ذمہ داری ادا نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: منی پور، خواتین کے گینگ ریپ کے دلخراش واقعہ پر بھارتی حکومت سوشل میڈیا پر برہم کیوں؟

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو بتاتے ہیں کہ جب بھی وہ کسی مشکل میں ہوں تو قریبی پولیس اسٹیشن جاکر مدد حاصل کریں کیونکہ گھر کے بعد وہی ایک محفوظ ترین جگہ ہوتی ہے، لیکن اس واقعہ کے بعد اب ہم انہیں کیا بتائیں گے، اور متاثرہ خواتین مدد حاصل کرنے کے لیے کہاں جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp