عمران خان کا ملٹری ٹرائل: ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو کیا بتایا؟

منگل 24 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ممکنہ فوجی حراست اور ٹرائل روکنے کی درخواست ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے بیان کے بعد نمٹا دی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کو ممکنہ طور پر فوج کی تحویل میں دینے کیخلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے بذریعہ اٹارنی جنرل آفس جواب طلب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اٹارنی جنرل بتائیں کہ عمران خان کا کیس ملٹری کورٹ میں چلے گا یا نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کا فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اگر ایسا کوئی فیصلہ ہوا تو قانونی طریقہ کار اپنایا جائے گا، ملٹری ٹرائل کا فیصلہ ہوا تو پہلے سول مجسٹریٹ کے پاس درخواست جائے گی، ان کے اس بیان کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست نمٹا دی

اس سے قبل عمران خان کو ممکنہ طور پر فوج کی تحویل میں دینے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی کیس نہیں لیکن آگے ہوسکتا ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ انہیں اس کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرائل کورٹ کہے تو عمران خان کو فوجی عدالت میں بھیجا جاسکتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ‏یہ سیاست ہے، عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی ملٹری حراست سے متعلق بیان ‏ڈی جی آئی ایس پی آر نے دیا ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے؛ ‏وہ بھی سیاست ہے، جس پر وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ اگر یہ سیاست ہے تو آپ اپنے آرڈر میں لکھ دیں۔

اس سماعت کے دوران عدالت نے وفاقی حکومت سے بذریعہ اٹارنی جنرل آفس جواب طلب کیا تھا، آج ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے اس بیان کے بعد ‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کا ممکنہ ملٹری حراست و ٹرائل روکنے کی درخواست نمٹا دی ہے۔

مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس میں 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوا؟

واضح رہے کہ 6 ستمبر کو پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے میڈیا بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ فوجی قانون کے تحت، جو بھی شخص آرمی ایکٹ کے تابع افراد کو ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اس طرح کی کارروائیوں کے شواہد موجود ہوں تو اس کے خلاف قانون کارروائی کی جاسکتی ہے۔

جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کے تحت جاری کارروائی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد پی ٹی آئی نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ فوج عمران خان کا ملٹری ٹرائل کرسکتی ہے۔ اس خدشے کو جواز بنا کر عمران خان نے اپنے وکیل کی وساطت سے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp