کیا الیکشن کے بعد جرمنی پاکستانیوں کو ویزے دینا بند کر دے گا؟

جمعرات 26 ستمبر 2024
author image

ڈاکٹر محمد ظہیر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

“یار، یہ وہ جرمنی نہیں رہا جو میں چھوڑ کر گیا تھا۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔”

مشرقی جرمنی کے ایک متوسط شہر کی ایک بیکری میں کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے میرے دوست نے کہا۔ وہ 10 سال پاکستان میں گزار کر حال ہی میں جرمنی واپس آیا تھا۔ بیکری کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔

“شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری عمر میں دس سال کا اضافہ ہو چکا ہے!” میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ لیکن وہ اپنے ناسٹلجیا میں گم اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا،

“اب گلیوں میں مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی چہرے زیادہ نظر آتے ہیں، اور بس اسٹاپوں پر سگریٹ کے ٹوٹے بکھرے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی انگریزی بول چال کافی بہتر ہو گئی ہے۔ اور دیکھو، چرس کا استعمال قانونی ہو گیا ہے اور گرین پارٹی حکومت میں ہے۔”

میں نے غور سے اس کی باتیں سنیں۔ اس کے مشاہدات کچھ غلط نہیں تھے۔ شاعروں اور مفکروں کی سرزمین نے پچھلے عشرے میں بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ 2015 کے پناہ گزینوں کے بحران کے بعد لاکھوں لوگوں کی آمد، رہائشی بحران، کورونا کی وبا، یوکرین جنگ کے بعد معاشی اور توانائی کا بحران، گرین پارٹی کی پالیسیاں اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی تشویش وغیرہ۔ لیکن سب سے نمایاں تبدیلی دائیں بازو کی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔

سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے

جرمنی میں جاری ریاستی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی  (اے ایف ڈی) نے توقع سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ تھورنگیا اور برانڈنبرگ جیسی ریاستوں میں ان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے، جس نے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ جماعت اپنے متنازعہ مؤقف اور امیگریشن مخالف پالیسیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔

جرمنی کا سیاسی نظام وفاقی حکومت کے ساتھ 16 ریاستوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی پارلیمنٹ اور حکومت ہوتی ہے۔ وہ تعلیم، پولیس، صحت اور ثقافتی امور جیسے معاملات میں خودمختار ہیں۔ تاہم امیگریشن، ٹیکس، خارجہ پالیسی اور دفاع جیسے اہم معاملات وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

اے ایف ڈی کی مقبولیت میں اضافہ بہت سے عوامل کا نتیجہ ہے۔ کچھ لوگ امیگریشن پالیسیوں سے ناخوش ہیں، کچھ معاشی مسائل اور بیروزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں، اور کچھ کو موجودہ حکومت کی پالیسیاں پسند نہیں آتیں۔ اس جماعت نے ان خدشات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کیا ہے۔

امیگریشن اور پاکستانیوں کے لیے ممکنہ اثرات

اس صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا جرمنی کے انتخابات کے بعد پاکستانیوں کے لیے ویزے بند ہو جائیں گے؟ اے ایف ڈی امیگریشن کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتی ہے، خاص طور پر غیر قانونی تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے بارے میں۔ ان کی پالیسیاں امیگریشن کو محدود کرنے اور جرمنی کی سرحدوں کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہیں۔ یہ جماعت چاہتی ہے کہ جرمنی کی روایتی اقدار کو برقرار رکھا جائے اور ثقافتی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے۔

اگرچہ اے ایف ڈی  کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ وفاقی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کی مقبولیت زیادہ تر مشرقی جرمنی کے کچھ حصوں تک محدود ہے، اور قومی سطح پر دیگر جماعتوں کے مقابلے میں ان کی حمایت کم ہے۔ دوسری جماعتیں، جیسے کہ کرسچین ڈیموکریٹک یونین، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، اور گرین پارٹی، اب بھی سیاسی منظرنامے پر غالب ہیں۔

جرمنی کی معیشت اور بین الاقوامی افرادی قوت

جرمنی کی معیشت بین الاقوامی افرادی قوت پر انحصار کرتی ہے۔ مینوفیکچرنگ، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیاں بین الاقوامی طلباء کو خوش آمدید کہتی ہیں، کیونکہ وہ تعلیمی اور تحقیقی میدان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستانی طلباء اور پیشہ ور افراد جرمنی میں اپنی قابلیت اور مہارتوں کے ذریعے اہم شراکتیں کر رہے ہیں۔

پھر یہ بھی کہ جرمنی کی آبادی بوڑھی ہو رہی ہے، اور معیشت کو نوجوان اور ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ حکومتیں عموماً معیشت کی ضروریات کے مطابق پالیسیاں بناتی ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ قانونی طریقے سے آنے والے طلباء اور پیشہ ور افراد کے لیے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے جائیں۔

یورپی یونین اور بین الاقوامی معاہدے

اس کے علاوہ، یورپی یونین کے قوانین اور بین الاقوامی معاہدے بھی امیگریشن پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جرمنی کو اپنے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ امیگریشن کو مکمل طور پر روکنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے، اور کسی بھی حکومتی جماعت کو ان عوامل کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

بفرضِ محال اے ایف ڈی آئندہ سالوں میں مرکز میں حکومت بنا بھی لیتی ہے، تو بھی انہیں دیگر جماعتوں اور پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ جرمنی میں سیاسی نظام اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ کوئی بھی جماعت تنہا مکمل اختیار حاصل نہیں کر سکتی۔ پالیسیاں بنانے اور قوانین پاس کرنے کے لیے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستانی کمیونٹی کی اہمیت

سارے خدشات کے باوجود یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستانی کمیونٹی جرمنی میں ایک مضبوط اور متحرک کمیونٹی ہے۔ وہ مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں، جیسے کہ تعلیم، صحت، آئی ٹی، انجینئرنگ، اور کاروبار۔ اس کمیونٹی کا جرمنی کی معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ہے جسے یکسر اور یکدم نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

مستقبل کا منظرنامہ اور امکانات

میرے دوست کی تشویشیں جائز تھیں، لیکن میں نے اس سے کہا کہ تبدیلیاں زندگی کا حصہ ہیں۔ سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں، لیکن مواقع ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ہر ملک وقت کے ساتھ بدلتا ہے، اور ہمیں ان تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔ جرمنی اب بھی ایک ترقی یافتہ ملک ہے جو ہنر مند افراد کی قدر کرتا ہے۔

اس نے مسکراتے ہوئے جواباً کہا کہ شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن میں اپنے پرانے جرمنی کو یاد کرتا ہوں۔ پرانی یادیں ہمیشہ خوبصورت ہوتی ہیں۔ لیکن نئے مواقع اور تجربات بھی زندگی کو دلچسپ بناتے ہیں۔ ہمیں مثبت رہنا چاہیے اور مستقبل کے امکانات پر نظر رکھنی چاہیے۔

ہم نے اپنی کافی ختم کی اور بیکری سے باہر نکل آئے۔ باہر سرد ہوا چل رہی تھی، لیکن مستقبل کے امکانات گرمجوشی سے بھرے ہوئے تھے کیونکہ تبدیلیاں صرف چیلنجز ہی نہیں، نئے مواقع بھی لاتی ہیں۔

سو ‘گھبرانا نہیں ہے’

پاکستانی طلباء اور پیشہ ور افراد کے لیے جرمنی کے ویزوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ، اہلیت اور معیار پر پورا اترنا ہمیشہ سے ضروری تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔ جرمنی میں مواقع موجود ہیں، لیکن محنت اور قابلیت کی ضرورت ہے۔ سیاسی تبدیلیاں اور جماعتوں کی مقبولیت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، لیکن جرمنی کی بنیادی ضروریات اور اقدار تبدیل نہیں ہوتیں۔

لہٰذا، جو لوگ جرمنی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اپنے کیریئر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، انہیں موجودہ حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ محنت، لگن، اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں۔ مواقع آپ کے منتظر ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لمز میں کیمیاء کے پروفیسر ہیں۔ اردو زبان میں سائنس کی تعلیم اور ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp