شاعروں، ادیبوں کی پتھریاں اور درد کا سنگِ گراں

جمعہ 27 ستمبر 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ دنوں گردے میں پتھری کے درد نے دن میں تارے دکھا دیے۔ درد کا حد سے گزرنا کیا ہوتا ہے یہ اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا۔ طبیعت بہتر ہونے پر پتھری کے بارے میں طرح طرح کے خیالات نے ذہن میں یورش کی تو ان میں سے ایک خیال ادب سے وابستہ ان معتبر ہستیوں کے بارے میں بھی تھا جنہوں نے پتھری کا درد سہا۔ اغلب  ہے کہ ہجر اور جگر میں موجود سارے جہاں کا درد انہیں اس کے سامنے  ہیچ نظر آیا ہو گا کیوں کہ یہ درد، دردِ دیگری ہے۔

پتھری کی بات ہو  تو جوش کے اس کاٹ دار جملے کی طرف دھیان ضرور جاتا ہے جسے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

اس کی شان نزول یہ ہے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو پتھری کی شکایت ہونے پر جوش ان کی خیریت دریافت کرنے گئے تو کہا ’مولانا اللہ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے‘۔ اس دوستانہ چہل سے مولانا بھی محظوظ ہوئے جن کی جوش سے پرانی یاد اللہ تھی۔

اقبال کے ’پتھری نامہ‘ کی تفصیلات ان کے خطوط اور ملفوظات میں بکھری ہیں جنہیں اقبال کے لفظوں میں ان کی آپ بیتی مرتب کر کے خالد ندیم نے ایک جگہ یکجا کر دیا ہے۔

’آپ بیتی علامہ اقبال‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹروں  نے معائنے کے بعد گردے سے پتھری نکالنے کے لیے آپریشن کو مسئلے کا حل بتایا لیکن دوست اور  رشتے دار اس کے حق میں نہیں تھے۔ اقبال ولایت سے آپریشن کے لیے تیار ہوئے تو  مولوی میر حسن نے منع کر دیا۔

اقبال علاج معالجے کے لیے ولایت نہیں گئے لیکن اس ارادے کی خبر اخبارات میں ضرور شائع ہوئی جو  اڑتے اڑتے دلی میں اس دور کے معروف معالج حکیم نابینا تک پہنچی اور انہوں نے حکیم الامت سے کہا ولایت کے بجائے دلی آجائیں۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی ’اصلاح‘ میں عجلت اور ماضی کے چند سبق

ڈاکٹر اقبال بغرضِ علاج دلی گئے۔ حکیم نابینا کی دوا سے انہیں افاقہ ہوا۔ اقبال کے بقول ’لاہور آکر دوائی شروع کی تو پیشاب کا رنگ سیاہی مائل ہونا شروع ہوا۔ روز بروز زیادہ سیاہی مائل ہوتا گیا، آخر کم ہونا شروع ہوا، یہاں تک کہ اصلی رنگ پر آگیا۔ سال بھر دوائی کھاتا رہا۔ اس کے بعد 10 سال سے دردِ گردہ نہیں ہوا‘۔

علامہ اقبال کی والدہ کے  گردے میں بھی پتھری تھی جس کا انہوں نے حکیم سے علاج کروایا تھا۔

شاعر کے بعد اب  فکشن نگار کا قصۂ درد سناتے ہیں جو خاکسار ان کی زبانی سن چکا ہے لیکن مبادا آپ یہ سمجھیں بیماری میں بے پر کی اڑاتا ہوں اور مضمون کا پیٹ بھرتا ہوں، اس لیے زیادہ مناسب یہی ہے کہ انتظار حسین کی کتاب ’جستجو کیا ہے‘؟ سے رجوع کر لیا جائے۔

یہ قصہ آفاق اخبار سے وابستگی کے دنوں کا ہے جس کی ملکیت مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہوئی شفاء الملک محمد حسن قرشی کے پاس آئی تھی۔ حاذق حکیم ہونا اور بات ہے لیکن اخبار چلانے کے لیے اور طرح کی حکمت درکار ہوتی ہے۔ حکیم صاحب کی ناکامی پر انتظار حسین نے یہ جملہ لکھا تھا: ’کیسے کیسے بیمار نے شفاء الملک کے ہاتھوں شفا پائی لیکن آفاق کے روگ کا علاج ان کے پاس بھی نہیں تھا‘۔

محمد حسن قرشی کا دفتر میں کم کم آنا ہوتا تھا البتہ ان کے بیٹے حکیم ریاض قرشی باقاعدگی سے اخبار کے معاملات دیکھتے تھے۔

گردے کی تکلیف میں مبتلا انتظار حسین کو ایک دن بلا کا درد اٹھا۔ دوا دارو سے افاقہ نہ ہوا۔ ڈاکٹر سے ٹیکہ لگوایا تو وہ بھی بے اثر رہا۔ تکلیف کے عالم میں فون کرکے دفتر اطلاع دی کہ آج تو آنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ اب کوئی اور مالک ہوتا تو جلد صحت یابی کی دعا دیتا لیکن اس مالک کے پاس دعا ہی نہیں دوا بھی تھی، سو اس نے چپڑاسی کے ہاتھ زود اثر دوا بھیجی جس سے  درد رفع ہوا۔ اس دوا کی تاثیر کے بارے میں انتظار حسین کا بیان ذرا سن لیں:

’چپڑاسی آیا اور عجب دوا ساتھ لایا۔ کالے نمک کی ڈلی۔ کہا کہ گلاس میں نیم گرم پانی ڈال کر اس ڈلی کو توڑ توڑ کر تھوڑا سا حصہ گھول لیجیے اور گھونٹ گھونٹ پیجیے۔ کمال ہو گیا۔ وقفے وقفے سے یہ چند گھونٹ یہ کالے نمک والا پانی پیا، درد غائب۔ میں ریاض قرشی کی حکمت کا قائل ہو گیا‘۔

مزید پڑھیے: سرسید کے زندہ دلان لاہور

اگلے روز انتظار حسین دفتر گئے تو حکیم صاحب نے بتایا کہ آپ کے گردے میں پتھری ہے جس کے لیے وہ معجون تیار کردیں گے لیکن اس کے لیے 2 کالے بچھو چاہییں جو لاہور سے نہیں سرحد سے ملیں گے۔ انتظار صاحب نے پشاور میں آفاق کے نمائندے سے بات کی تو اس نے ہنڈیا میں 2 کالے بچھو بند کرکے بھجوا دیے۔

حکیم صاحب بچھو دیکھ کر خوش ہوئے اور انتظار حسین سے کہا: ’یہ بچھو تو چٹان میں ڈنک مارے تو اس میں دراڑ پڑجائے۔ آپ کے گردے میں پتھری کیا بیچتی  ہے۔ معجون کی چند خوراکوں میں چورا ہو کر پیشاب کی راہ نکل جائے گی‘۔

اس سے پہلے کہ معجون سے انتظار صاحب کی پتھری ریزہ ریزہ ہوتی۔ آفاق اخبار میں ان کے دن پورے ہو گئے۔ تنخواہ میں تاخیر سے ان کا پارہ اتنا چڑھا کہ اخبار سے رشتہ توڑ دیا۔ حکیم صاحب نے فون پر  کہا کہ ناراضی اپنی جگہ لیکن معجون تیار ہے وہ تو لے جائیں۔

انتظار حسن نے جواب دیا: ’حکیم صاحب اب یہ معجون کسی اور بیمار کو چٹائیے۔ میرے درد کی دوا آپ کے پاس نہیں ہے‘۔

انتظار صاحب کے قرشی خاندان سے تعلقات تو آجر اجیر کی حیثیت سے تھے لیکن حکیم حبیب اشعر دہلوی سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ وہ بڑی محبت سے ان کا تذکرہ کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں شفا سے مرض دور ہو جاتا لیکن مریض قریب آجاتے تھے۔ انتظار صاحب نے ان کی شخصیت کے اس پہلو کو اس خوبصورت پیرائے میں اجاگر کیا ہے:

’بیمار شفا پاتے پاتے بالعموم یار بن جاتے… بیمار شفا پا کر حکیم صاحب کے بیماروں میں شامل ہو جاتا تھا۔ ہاتھ میں قدرت نے شفا دی تھی مگر عجب شفا تھی کہ مریض شفا پاتے جاتے تھے اور بیمار بنتے جاتے تھے‘۔

حکمت سے انتظار صاحب کے ادبی تعلق کا اظہار حکیم اجمل خان کی سوانح عمری ’اجمل اعظم‘ سے ہوتا ہے۔

انتظار حسین کی پتھری کے بعد اب کچھ ذکر احمد ندیم قاسمی کی ’چٹان‘ کا ہوجائے۔ قاسمی صاحب کافی عرصہ آپریشن سے گریز کرتے رہے لیکن پھر درر نے وہ شدت پکڑی کہ آپریشن کرواتے ہی بنی۔

فتح محمد ملک کے نام قاسمی صاحب کے ایک خط میں پتھری کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں:

’کراچی آیا تو ہوائی جہاز میں ہی فلو اور بخار ہو گیا۔۔۔ وہاں کے ایک کلینک سے گردے کے ایکس رے اتروائے۔ انہوں نے خاصا نڈھال کیا۔ پھر 27 کو جمیل الدین عالی صاحب مجھے حیدر آباد ایک مشہور سرجن جتوئی کے پاس لے گئے۔ اس لالچ میں کہ ان کے پاس ایک ایسی جرمن مشین ہے جو گردے میں پتھر کو  توڑ کر اسے نکال لاتی  ہے۔ ڈاکٹر جتوئی نے ایکس رے دیکھے تو بولے کہ وہ مشین تو چھوٹے کنکر توڑنے کے لیے ہے۔ یہ تو ایک ’چٹان‘ ہے۔ یہ تو مشین ہی کو توڑ دے گی۔ بہر حال انہوں نے کہا کہ بڑا آپریشن ہو گا اور یہ خطرناک نہیں ہوتا۔ 65 سال کی عمر میں بھی خطرناک نہیں ہوتا‘۔

مزید پڑھیں: درد کا رشتہ نبھانے والے اہل قلم

قاسمی صاحب کی ’چٹان‘ سے خیال کی رو اب اس ’سنگِ گراں‘ کی طرف جاتی ہے جس کا سامنا ڈاکٹر خورشید رضوی کو گورنمنٹ کالج ساہیوال میں زمانہ طالب علمی میں ہوا۔ اس کا تذکرہ ساہیوال سے جڑی ان کی یادداشتوں میں موجود ہے۔ ان کے بیان سے پتھری کے درد کے ساتھ ساتھ ہم  پرنسپل میاں اصغر علی سے متعارف ہوتے ہیں جن کی انتظامی صلاحیتوں نے کالج کو بڑی ترقی دی تھی۔

واقعہ یہ ہے کہ خورشید رضوی سالِ سوم میں امتحانات کے قریب بیمار پڑ  گئے۔ اس  حالت میں وہ پرنسپل کی رہائش گاہ پر گئے۔ وہ یہاں درد کی دوا کے لیے منت کش ہونے نہیں آئے تھے بلکہ امتحانات کی فکر انہیں یہاں کھینچ لائی تھی لیکن  پرنسپل  نے طالب علم سے بیماری کا احوال سن کر کہا کہ  فی الحال امتحان بھول جاؤ اور صحت کی فکر کرو۔ کہا کہ وہ سول اسپتال فون کردیتے ہیں وہاں جا کر معائنہ کرواؤ۔ تانگے پر انہیں اسپتال روانہ کیا جہاں 2 ڈاکٹر برآمدے میں کھڑے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ چیک اپ کے بعد خورشید رضوی رپورٹ لے کر پرنسپل صاحب کے پاس گئے تو انہیں فون پر اس کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے کہا:

Unfortunately they suspect a stone in the kidney.

بیماری کے دنوں میں پرنسپل صاحب سے کہیں مڈبھیڑ ہوتی تو وہ خیریت ضرور دریافت کرتے :

’رول نمبر فور، ہاؤ آر یو فیلنگ ناؤ‘؟

’ سر آئی ایم بیٹر ناؤ‘

’ٹیک کیئر، ٹیک کیئر‘

خیریت گزری کہ بیماری نے سنگین صورت اختیار نہ کی اور خورشید صاحب جلد روبصحت ہو گئے۔

خورشید رضوی کا حکیم نیر واسطی سے قریبی تعلق رہا جن کا خاکہ ان کی کتاب ’بازدید‘ میں شامل ہے۔

پہلی دفعہ وہ فم معدہ (کی تکلیف) کی دوا لینے مستی دروازے ان  کے مطب  پر گئے جس سے مریض اور طبیب میں محکم رشتے کی بنا پڑی۔ اس خاکے میں درج عرب شاعر السری الرفا کا ایک شعر ہمیشہ میرے ذہن میں رہا جو اس نے اپنے معالج کی شان میں کہا تھا۔ خورشید صاحب نے اپنا پہلا  شعری مجموعہ ’شاخ تنہا‘ حکیم صاحب کو  پیش کیا تو اس پر  یہ شعر لکھا۔

شعر کا عربی متن اور خورشید صاحب کے قلم سے اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

یبدو لہ الداء الخفی کما بدا

للعین رضراض الغدیر الصافی

(چھپا ہوا روگ

اُس پر یوں منکشف ہو جاتا ہے

جیسے شفاف تالاب کی تہ میں پڑے ہوئے باریک سنگریزے

نگاہ کی زد میں آجاتے ہیں۔)

اب خورشید رضوی سے آجاتے ہیں فارسی زبان کے ممتاز اسکالر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی طرف جنہوں نے حکیم نیر واسطی کا عمدہ خاکہ لکھا ہے جو ان کے والد اختر شیرانی کے گہرے دوست بھی تھے۔ پتھری کا حوالہ البتہ پروفیسر حمید احمد خان کے خاکے میں ہے جنہوں نے انہیں آزمودہ لیکن عجیب وغریب طریقہ علاج بتایا۔

شیرانی صاحب  کو سنہ 1965 میں پتھری کی شکایت ہوئی۔ ان کے بقول ’مرض کی نوعیت یہ تھی کہ دونوں گردوں میں چھوٹی چھوٹی پتھریاں بنتیں اور باری باری نکلتی تھیں‘۔

حمید احمد خان کو  اس کا علم ہوا تو انہوں نے  بتایا کہ  وہ اسلامیہ کالج میں لیکچرار بھرتی ہوئے تو انہیں بھی اس درد نے آلیا تھا جس سے نجات کے لیے ان کے کسی شاگرد کے دادا نے ایسا نسخہ بتایا جس سے پتھریاں نہ صرف خارج ہو گئیں بلکہ آئندہ یہ شکایت نہیں ہوئی۔
مظہر محمود شیرانی بھی اس نسخے کے طلبگار ہوئے، جسے بتانے میں حمید احمد خان کو تامل تھا کیونکہ نسخہ کارگر اور مفید ضرور تھا لیکن مکروہ بھی تھا۔ لیکن پھر طوعاً کرہاً مریض کو بتانا ہی پڑا:

’اس میں وقفے وقفے سے علی الصباح، نہار منہ، باسی پانی سے 3 بار زندہ جگنو نگلنا ہوتا ہے۔ پہلے اور دوسرے کے درمیان پورے ایک ہفتے کا اور دوسرے اور تیسرے کے درمیان پورے 2 ہفتے کا وقفہ ہونا چاہیے۔ جگنو کے لیے 2 شرطیں تھیں۔ ایک تو وہ نگلتے وقت زندہ ہو دوسرے اس کا روشنی کا انڈا صحیح سالم یعنی خوب روشن ہو۔ فرمایا کہ میں نے تو حلوے کا چھوٹا سا گولا بنا کر اور انگوٹھے سے اس میں خلا پیدا کر کے  جگنو رکھ کر نگلا تھا لیکن اب کیپسول آگئے ہیں، ان سے مدد لی جاسکتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیے: کہنے کو عام لیکن اصل میں خاص آدمیوں کا تذکرہ

اور بھی احتیاطی تدابیر بتائی گئیں۔ نسخہ مظہر محمود شیرانی نے خود بھی استعمال کیا کئی دوسروں کو بھی کروایا۔ جس نے آزمایا اسے  درد سے مستقل نجات مل گئی۔ افاقہ مظہر محمود شیرانی کو بھی ہوا لیکن مستقل آرام سے محروم رہے اور ان کا معاملہ ان کے بقول فارسی کی اس مثل کے مصداق رہا:

تہی دستان قسمت را چہ سود از رہبر کامل

(جن کی قسمت ہی کھوٹی ہو انہیں کسی کامل ہستی کی رہنمائی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا)

اور اب آخر میں معروف فکشن نگار حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ سے ایک حوالہ۔ ڈاکٹر نے ان سے کہا تھا: ’میاں آپ کے جسم میں پتھریاں بنانے کی فیکٹری لگی ہوئی ہے‘۔

حمید شاہد 3 آپریشن کروا چکے ہیں لیکن ان کے بقول ’یہ جو اندر سے ’سنگساری‘ کا خوف ہے یہ جاتا ہی نہیں ہے‘۔

ان کی کتاب میں آپریشن کے تذکرے کے ساتھ بیان ہونے والا ایک  واقعہ جو ایک بہت بڑے انسانی جذبے کا اظہار ہے وہ دلگیر کر دیتا ہے:

’اسپتال میں اس خوبصورت اور جواں سال لڑکی کا مرنا تو میں بھول ہی نہیں پاؤں گا؛ جی، زندگی بھر بھول نہیں پاؤں گا جو میرے ساتھ اس اسپتال میں داخل ہوئی تھی جہاں میں اپنی گردے کی پتھری نکلوانے گیا تھا۔ نہیں، اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم بے شک ایک روز اسپتال پہنچے تھے، مگر وہ میرے ساتھ نہیں، اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ داخل ہوئی تھی۔ ایک خوبصورت جواں سال لڑکی جس نے اپنا گردہ اپنے باپ کو دینے کا فیصلہ کیا تھا کہ اس کا بوڑھا باپ مر رہا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ باپ بیٹی کا گردہ پا کر ٹھیک ہو گیا اور بیٹی مر گئی تھی۔ جسے زندہ رہنا تھا وہ مر گئی اور جو مر رہا تھا وہ زندہ رہا‘۔

یہ چند حکایتیں بنیادی طور پر پتھری کی تکلیف کے شکار انسانوں کے بارے میں تھیں لیکن ان میں بیماروں سے سچی ہمدردی، ان کا درد محسوس کرنے اور جذبہ ایثار کی فراوانی بھی نظر آتی ہے۔ اس میں معالج کے رویے میں کوئی لوبھ نہیں اس کی نظر مریض کی جیب نہیں اس کی بیماری پر ہے۔ ہر کوئی دوسرے کی مدد کر رہا ہے۔ بندہ بندے کا دارو بن رہا ہے اور یہی انسانیت کی معراج ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp