چند روز قبل بلوچستان کے ضلع پنجگور میں نامعلوم افراد نے رہائشی عمارت میں گھس کر فائرنگ کرتے ہوئے 7 مزدوروں کو قتل کردیا تھا، جن کا تعلق پنجاب کے ضلع ملتان سے تھا۔
واقعے کا مقدمہ کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا ہے، جس میں قتل اور اقدام قتل سمیت دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں پھر دہشتگردی، پنجاب سے تعلق رکھنے والے 2 مزدور قتل
واقعے میں جاں بحق ہونے والے تمام مزدور آپس میں رشتہ دار تھے، پولیس کے مطابق مزدوروں کا ایک ساتھی معجزانہ طور پر بچ گیا، ملتان سے تعلق رکھنے والاعمران قتل کیے جانے والے مزدوروں کے ساتھ تعمیراتی کام کر تا تھا۔
عمران نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ واقعے کے وقت وہ اپنے مزدور ساتھیوں کے ہمراہ نہیں تھا بلکہ مکان کی تعمیر کا کام کرکے رہائشگاہ کی جانب لوٹتے ہوئے اس کی موٹرسائیکل خراب ہوگئی تھی۔
’میں موٹرسائیکل کھڑی کرنے کے لیے دوسرے مکان کی جانب چلا گیا، لیکن جب واپس لوٹا تو دیکھا کہ میرے ساتھی خون میں لت پت تھے‘۔
پولیس کے مطابق عمران کو اس کے آبائی علا قے ملتان روانہ کردیا گیا ہے جبکہ واقعے کی مزید تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے ہیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ رواں برس دہشتگردی کے مختلف واقعات میں 40 سے زیادہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور شرپسندی کی نذر ہوچکے ہیں۔
رواں سال پنجاب کے رہائشی مزدوروں پر دہشتگردی کا پہلا واقعہ 13 اپریل کو نوشکی میں رونما ہوا جب ایران جانے والی بس سے شناخت کرکے 9 مزدوروں کو بس سے اتارا گیا اور بعد ازاں انہیں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔
اسی ماہ 28 اپریل کو ضلع کیچ میں تعمیراتی عمارت میں کام کرتے ہوئے مزدوروں پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کردی گئی جس کے نتیجے میں 2 مزدور جاں بحق ہوئے۔
اس کے بعد اگلے ہی ماہ گوادر کے علا قے سربندر میں شر پسندوں نے ایک کمرے میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 7 مزدور زند گی کی بازی ہار گئے جبکہ 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب کو کالعدم تنظیم کی جانب سے موسیٰ خیل اور بولان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 21 مزدوروں کو قتل کردیا گیا تھا۔
محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں رواں برس لسانی بنیادوں پر دہشتگردی کی شرح میں 300 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف دہشتگردی کے واقعات میں اضافے نے دیگر صوبوں کے مزدوروں کی پریشانی میں بھی اضا فہ کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجگور سے مزدوروں نے اپنے علاقوں کا رخ کر نا شروع کردیا ہے تاہم بلو چستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی مزدور خوف میں مبتلا ہیں۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک حجام نے کہاکہ میں گزشتہ دو دہائیوں سے کوئٹہ میں حجام کا کام کررہا ہوں۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد صوبے میں لسانی بنیادوں پر دہشتگردی کے واقعات ہوتے تھے لیکن اس بار ان کی نوعیت کافی سنگین معلوم ہوتی ہے۔
حجام نے کہاکہ سالوں لگا کر یہاں اپنا نام بنایا، لیکن اب ہمارے لیے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کشیدہ ہو تے جارہے ہیں۔
’پنجگور واقعے کے بعد گوجرانوالہ میں موجود میرے اہل خانہ مجھے کہتے ہیں کہ ہم بھوکے رہ لیں گے مگر بلوچستان میں مزدوری کرنا چھوڑ دو‘۔
تعمیراتی شعبے سے منسلک ٹھیکیدار عرفان الحق نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں کام کرنے والے 70 سے 80 فیصد مزدوروں کا تعلق پنجاب سے ہے، ایسے میں دہشتگردی کے پے درپے واقعات کے سبب مزدور اب بلو چستان میں کام کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے مزدور ملنا بے حد مشکل ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں، مرنے والوں کی تعداد 39 ہوگئی
ان کے مطابق مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم زندگی داﺅ پر لگا کر اب مزدوری نہیں کرسکتے، کم کمالیں گے لیکن اپنے علاقوں کو واپس چلے جائیں گے۔