سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی گزشتہ روز سماعت کا حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظرثانی کی درخواست 3 روز زائد المیعاد ہے، جس کی عمران خان کے وکیل علی ظفر نے مخالفت کی، تاہم بینچ کی دوبارہ تشکیل پریکٹس اینڈ پروسیجز قانون کے مطابق ہے۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامہ کے مطابق یہ واضح ہے کہ فیصلہ کی وجوہات کے بغیر نظرثانی نہیں مانگی جا سکتی، تفصیلی فیصلہ جاری ہونے پر ہی غلطی کی وجوہات سامنے آ سکتی ہیں،63 اے کی نظرثانی تین ماہ اور 21 دن تفصیلی فیصلہ جاری ہونے سے پہلے دائر کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس: جسٹس منیب اختر کا سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں شمولیت سے انکار
عمران خان کے وکیل علی ظفر کو متعدد متفرق درخواستوں پر دلائل کی اجازت دی گئی، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی اجازت مانگی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ملاقات کے لیے عدالتی ہدایات جاری کی گئیں، سپریم کورٹ بار کی درخواست پر 19 مارچ کو سیاسی جماعتوں اور متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے۔
c.r.p._197_2022_02102024 by Asadullah on Scribd
سپریم کورٹ کے حکم نامہ میں کہا گیا ہے عدالتی آرڈر کے بعد صدر عارف علوی نے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا، صدارتی ریفرنس اور 184 کی درخواستیں یکجا کر کے سنی گئیں، سابق چیف جسٹس نے 24 مارچ کو سماعت کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا،14 اپریل کو عمران خان نے بابر اعوان کے ذریعے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے فیصلے پر نظر ثانی کے اثرات کیا ہوں گے؟
حکم نامے کے مطابق بابر اعوان نے نشاندہی نہیں کی کہ 11 سال سے زیر التوا بھٹو ریفرنس پر پہلے سماعت کی جائے، وہ بھٹو ریفرنس کیس میں بھی وکیل تھے، صدر وفاق کے اتحاد کی علامت اور عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، آئین یا قانون میں صدارتی ریفرنس میں تمام شہریوں کو نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں، عمران خان کے وکیل کے اعتراضات قابل جواز نہیں۔
حکم نامہ کے مطابق نظرثانی درخواست آؤٹ آف ٹرن مقرر ہونے کا جواز درست نہ ہونے پر مسترد کیا جاتا ہے، بینچ کی تشکیل پر عمران خان کے وکیل علی ظفر نے اعتراض اٹھایا، چیف جسٹس نے اپنے جوابی خط میں بینچ تشکیل سے متعلق وضاحت کی، حالانکہ چیف جسٹس قانونی طور پر وضاحت دینے کے پابند نہیں۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح غلط کی، مراد علی شاہ
سپریم کورٹ کے حکم نامہ کے مطابق جسٹس منیب اختر نے بینچ میں شامل ہونے پر اپنی عدم دستیابی سے آگاہ کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے بھی بینچ میں شامل ہونے سے انکار کیا، جس کے بعد جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کیا گیا، بینچ کی دوبارہ تشکیل پریکٹس اینڈ پروسیجز قانون کے مطابق ہے۔
’پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی یا چیف جسٹس کسی کو بینچ میں بیٹھنے پر مجبور نہیں کر سکتے، یہ اعتراض بھی مسترد کیا جاتا ہے، عمران خان کے وکیل نے صدارتی آرڈیننس کی قانونی حیثیت چیلنج کرتے ہوئے آرڈیننس کے تحت عدالتی کاروائی کی ریکارڈنگ اور ٹراسکرپٹ تیار کرنے کا بھی کہا، کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کی جاتی ہے۔‘