جناب عمران خان ہمیشہ ایسے کام کرتے ہیں جو ان کے دامن پر دھبہ بنے رہتے ہیں۔ سن دو ہزار چودہ والا دھرنا طعنہ بن کر اب بھی ان کی جان کے لاگو ہے کہ انھوں نے عین اس وقت اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیا جب چینی صدر نے اسلام آباد آنا تھا، اس دورے کے دوران 34 ارب ڈالر کے مختلف معاہدے ہونا تھے۔ ڈی چوک میں عمران خان اور ان کے اس وقت کے سیاسی کزن مولانا ظاہر القادری کے پیروکاروں کو دیکھ کر چینی صدر اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ حالانکہ عمران خان چینی صدر کے دورہ کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے۔ اگر نہیں سمجھتے تھے تو ان کے ساتھی شاہ محمود قریشی کے علم میں سب کچھ تھا۔ ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے قائد کو بتایا ہو، جواب میں جناب عمران خان نے انھیں ڈانٹ پلائی ہو کہ شاہ محمود! میں یہ معاملات بھی تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔
اب ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم اسلام آباد میں ہیں، جناب عمران خان کی طرف سے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو حکم ہوا کہ لشکر لے کر ہر صورت میں ڈی چوک پہنچو۔ حالانکہ جناب عمران خان کو بخوبی علم ہے کہ ملائشیا کے وزیراعظم کا دورہ پاکستان کس قدر اہم ہے!
اس دورے میں پاکستان اور ملائشیا باہمی تجارت، روابط، توانائی، زراعت، حلال صنعت، سیاحت، ثقافتی وفود کے تبادلوں اور عوامی رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے وسیع ایجنڈے پرتبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
بہرحال آنے والے دنوں میں اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے 4 اکتوبر کے احتجاج کو انور ابراہیم کا دورہ اور شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اہم ترین اجلاس کو درہم برہم کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ناقابل فہم ہے کہ آخر وہ کون ہے جو جناب عمران خان کو ایسے منفرد آئیڈیاز دیتا ہے! یا پھر خود عمران خان کا زرخیز ذہن ایسی “شاندار” سوجھ بوجھ رکھتا ہے!!
جناب عمران خان اور ان کے ساتھیوں، وکلا کے منفرد طرز عمل کی کچھ دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ اگلے روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی کا معاملہ درپیش تھا۔ سوال محض یہ تھا کہ کیا اس آرٹیکل کی بابت سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے پر نظرثانی کی درخواستیں منظور کی جائیں؟ سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل اور سینیٹر علی ظفر نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کروانا چاہتے تھے لیکن ایسے محسوس ہورہا تھا کہ یہ ان کی ایسی خواہش تھی جو وہ زبان پر نہیں لانا چاہتے تھے، اپنے دل کے نہاں خانوں ہی میں رکھنا چاہتے تھے۔ بصورت دیگر وہ قانونی نکات اٹھاتے کہ آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ کا سابقہ فیصلہ درست ہے اور اس پر نظرثانی نہیں ہوسکتی۔ تاہم ان کا سارا زور محض ایک ہی بات پر تھا کہ جو بینچ یہ کیس سن رہا ہے، وہ غیر قانونی ہے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کا سابقہ فیصلہ کیا تھا؟
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، سپریم کورٹ سے مستعفی ہونے والے سابق جج جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اپنے اُس اکثریتی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ منحرف رکنِ پارلیمان کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے۔ جبکہ اُس پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
اختلاف کرنے والے دونوں ججوں نے قرار دیا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح ’آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہو گی۔‘
17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین، دو کے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ چار صورتوں میں پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا: وزیراعظم اور وزیر اعلی کے انتخاب، ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ، آئینی ترامیم کے لیے ووٹنگ اور بجٹ اجلاس میں ووٹنگ کے دوران میں۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر آئین کی دفعہ 63 اے کی “تشریح ” تھی۔ بینچ میں شامل دو ججز جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ اختلاف کرنے والے دونوں ججوں نے قرار دیا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح ’آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہو گی۔‘
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے اس فیصلے یا بہ الفاظ دیگر اس “تشریح ” غیرجانبدار مبصرین بھی حیران تھے کہ ان تینوں ججز نے آئین دوبارہ لکھنے کا “فریضہ” سر انجام دے ڈالا ہے۔ اگر یہ “تشریح ” اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ایک ترمیم کی صورت میں آئین میں شامل کردیتی تو بالکل درست ہوتا۔ صرف اور صرف پارلیمان کو حق حاصل ہے کہ وہ آئین میں ترمیم و اضافہ کرے۔ سپریم کورٹ آئین میں زیر، زبر، پیش کا اضافہ بھی نہیں کرسکتی۔
ایک اعتبار سے جناب عمران خان اور ان کی پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ ورنہ ان کے وکیل علی ظفر اسی نکتہ پر سپریم کورٹ میں دلائل دیتے۔ تاہم پی ٹی آئی کا طرزعمل مختلف رہا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جناب عمران خان اور ان کی پارٹی کا شروع ہی سے وتیرہ یہی رہا ہے کہ ججز پر سرخ دائرے لگائے جائیں کہ فلاں جج بھی پینل میں نہ بیٹھے، فلاں بھی اور فلاں بھی۔ بلیک لسٹ ججز کے عنوان سے ان کے پاس ایک طویل فہرست ہے جس میں نام شامل بھی کیے جاتے ہیں اور خارج بھی کیے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کا بس چلے تو وہ تاریخ کے کوڑے دان سے ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال جیسے ججز کو نکال باہر لائیں اور ان سے بالکل ویسے ہی انصاف حاصل کرتے رہیں جیسے وہ پہلے کرتے رہے۔
ان ججز کے بارے میں تاثر بہت خراب رہا ہے کہ یہ اپنی خوش دامن سے پوچھ پوچھ کر، اپنے سیاسی قائد کے احترام میں اٹھ اٹھ کر، انصاف دیتے رہے۔ صرف ایک ہی شخصیت یعنی اپنے سیاسی قائد کو دیکھتے ان کی باچھیں کھل جاتی تھیں اور وہ پکار اٹھتے تھے “آپ کو دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔” لیکن افسوس کہ اب یہ ججز جناب عمران خان کو دستیاب نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے وکلا کو سپریم کورٹ کے موجودہ ججز کے سامنے ہی پیش ہونا پڑے گا۔ بہتر طرز عمل یہی ہے کہ وہ ججز کو اپنے تئیں بلیک لسٹ کرتے رہنے کا کھیل نہ کھیلیں، بلکہ سارا زور قانونی نکات تلاش کرنے اور انھیں بینچ کے سامنے رکھنے اور ججز کے اذہان قلوب کو مسخر کرنے پر لگائیں۔
دھونس اور دھمکی دینے والے کے پاس دلیل نہیں ہوتی۔ اگر دلیل ہوتی تو تحریک انصاف کے ایک اور وکیل سید مصطفین کاظمی سپریم کورٹ کے ججز کو کبھی یہ دھمکی نہ دیتے کہ باہر 500 وکلا کھڑے ہیں،ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کیسے فیصلہ آتا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ کاظمی صاحب زمانہ طالب علمی میں کراچی یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ لیڈر تھے اور اس گروہ کے ماتھے کا جھومر تھے جسے “سرخے” کہا جاتا ہے۔ ہم تو سنا کرتے تھے کہ سرخے نظریاتی ہوتے ہیں۔ اور نظریاتی لوگ ہمیشہ دلیل اور بس دلیل ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن سید مصطفین کاظمی نے اپنے حالیہ طرز گفتگو سے سرخوں کا نام خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ بینچ پر اعتراض کرنا ان کا قانونی حق ہے۔ چنانچہ وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو کسی بینچ کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتے، اب وہ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں دیگر ججز بھی ان کے نشانے پر ہوں گے۔ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر، پی ٹی آئی کے تئیں بلیک لسٹ ہو جائیں۔
تاہم یہ طرزعمل درست نہیں کہ ایک جج جب تک آپ کے حق میں فیصلے دے، وہ سر آنکھوں پر، جب وہ آپ کے خلاف فیصلہ دے تو اسے اٹھا کر زمین پر پٹخنے کی کوشش کریں۔ اگر پھر وہ آپ کے حق میں فیصلہ دے تو ایک بار پھر اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیں۔ جناب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا مجموعی طرز عمل ایسا ہی ہے کہ ایک کام آپ کریں تو جائز لیکن دوسرا کرے تو ناجائز۔ پچھلے دنوں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب اڈیالہ جیل میں جناب عمران خان سے صحافی نے پوچھا کہ آپ تو آئینی عدالت کے حق میں دلائل دیا کرتے تھے، اس کے قیام کی ضرورت، اہمیت اور فضائل و مناقب بیان کیا کرتے تھے، اب کیوں مخالفت کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ ان کی اس بات کا مطلب جو میں سمجھ پایا، یہ تھا کہ اگر آئینی عدالت میں بناوں تو عین قومی مفاد میں قرار پائے گی لیکن اگر کوئی دوسرا سیاسی گروہ ایسی عدالت قائم کرے تو ملک دشمنی۔ :ایک بار پھر جواں مرگ شاعر محمد صدیق ضیا کا شعر یاد آیا
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی