عوامی نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنما اور پشاور پر 6 دہائیوں تک راج کرنے والے معروف سیاسی خاندان کے سربراہ، حاجی غلام احمد بلور نے سیاست سے کنارہ کشی کے بعد اب اپنے آبائی شہر پشاور کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلور خاندان نے پشاور میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کے مرکز ’بلور ہاؤس‘ کو بھی فروخت کردیا ہے۔
خاندان نے تصدیق کی ہے کہ غلام بلور نے گورنر ہاؤس کے قریب واقع پشاور کا واحد ذاتی گھر، بلور ہاؤس، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور سابق گورنر حاجی غلام علی کو بھاری قیمت پر فروخت کر دیا ہے اور اب اسلام آباد منتقل ہوچکے ہیں۔ اس وقت غلام بلور پشاور میں الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں، جبکہ کبھی سیاسی سرگرمیوں سے گونجنے والا بلور ہاؤس اب ویران دکھائی دیتا ہے۔
’یہ ایک دن کا فیصلہ نہیں، 2008 سے پشاور چھوڑنے کا عمل شروع ہوچکا تھا‘
خاندان کے مطابق پشاور چھوڑنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا بلکہ یہ ایک تدریجی عمل تھا جو 2008 سے شروع ہوا۔ ہارون بلور کے صاحبزادے دانیال بلور نے بتایا کہ غلام بلور نے یہ فیصلہ دل پر پتھر رکھ کر کیا۔ خاندان کا 99 فیصد حصہ پہلے ہی پشاور سے منتقل ہو چکا تھا، اور الیاس بلور کی وفات کے بعد غلام بلور بھی اس فیصلے پر آمادہ ہوئے۔ دانیال کے مطابق، بلور خاندان نے پشاور کو خود نہیں چھوڑا بلکہ حالات نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
مزید پڑھیں: کیپٹن صفدر کے پشاور میں ڈیرے: کیا ن لیگ عوامی نیشنل پارٹی سے انتخابی اتحاد کر رہی ہے؟
غلام بلور کو پشاور چھوڑنے پر کیوں مجبور ہونا پڑا؟
دانیال کے مطابق، خاندان کو مسلسل دہشتگردی اور ناانصافیوں کا سامنا رہا۔ سب سے پہلے بشیر بلور کو خودکش حملے میں شہید کیا گیا، اس کے بعد ہارون بلور بھی انتخابی مہم کے دوران دہشتگردوں کا نشانہ بنے۔ ان حالات نے غلام بلور کو اندر سے توڑ دیا۔ ساتھ ہی ان پر مقدمات قائم کیے گئے، جائیداد پر قبضے کی کوششیں ہوئیں، اور عدالتی پیچیدگیوں میں الجھایا گیا۔ انتخابات میں بھی اُن کے مینڈیٹ کو نظرانداز کیا گیا، جس سے وہ شدید مایوس ہوئے۔
نواسے کی سیاست میں عدم دلچسپی
دانیال نے بتایا کہ غلام بلور کا اکلوتا بیٹا بشیر بلور سیاست کی نذر ہو گئے، اور ان کا نواسہ، جو لندن سے تعلیم مکمل کرکے واپس آیا ہے، سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ سیکیورٹی خدشات کے باعث نواسہ اور دیگر اہل خانہ پہلے ہی اسلام آباد منتقل ہو چکے تھے۔ نواسے ہی نے غلام بلور کو یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ کیا۔ غلام بلور کی 3 بیٹیاں بھی اسلام آباد یا بیرونِ ملک مقیم ہیں۔
بڑھاپا، بیماری اور سکون کی تلاش
خاندان کے مطابق، غلام بلور اب عمر رسیدہ اور بیمار ہیں اور سکون چاہتے ہیں۔ دانیال بلور کے مطابق وہ اب بھی سماجی تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پشاور کے دکھ سکھ میں شریک رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: عوامی نیشنل پارٹی چارسدہ تک محدود ہو رہی ہے ؟
’بلور ہاؤس نہیں، پشاور خالی ہو گیا‘
سینیئر صحافی شمیم شاہد نے غلام بلور کی رخصتی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج صرف بلور ہاؤس نہیں، بلکہ پورا پشاور خالی ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلور خاندان 6 دہائیوں سے سیاست میں سرگرم رہا اور ان کا مقام منفرد تھا۔ بلور ہاؤس میں نواز شریف، اشرف غنی اور حامد کرزئی جیسے اہم رہنما آ چکے ہیں۔
کیا بلور خاندان کی سیاست کا باب بند ہو گیا؟
دانیال بلور نے واضح کیا کہ ان کے نانا اور والد کی سیاست کے بعد اگر حالات بہتر ہوئے تو وہ خود عوامی خدمت کے لیے میدان میں آئیں گے۔ ان کی والدہ، ثمر ہارون بلور، سیاست سے دور ہوچکی ہیں اور وہ خود عدالتی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، لیکن سیاسی ورثہ ان کے دل میں زندہ ہے۔
بلور خاندان: باجوڑ سے پشاور تک
غلام احمد بلور کا تعلق پشاور کے ایک بااثر اور قدیم تاجر و سیاسی خاندان سے ہے، جس کی جڑیں قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں پیوست ہیں۔ ان کے آبا و اجداد وہاں سے ہجرت کر کے پشاور آباد ہوئے، جہاں ان کے والد حاجی بلور دین نے تجارت اور سماجی خدمت کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ بلور خاندان نے صرف معیشت میں نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور قومی سیاست میں بھی اپنی شناخت قائم کی۔
غلام احمد بلور نے عملی سیاست کا آغاز محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم میں شرکت سے کیا، جب وہ ایوب خان کے مقابلے میں امیدوار تھیں۔ 1975 میں وہ نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ بعدازاں وہ 1988 سے 2013 کے دوران 6 مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، جن میں سے 5 بار انہوں نے پشاور کے تاریخی حلقے NA-1 سے کامیابی حاصل کی۔
مزید پڑھیں: اے این پی رہنما سابق سینیٹر الیاس احمد بلور انتقال کرگئے
انہوں نے مختلف ادوار میں وفاقی وزیر برائے ریلوے اور وزیر برائے بلدیات کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وزارتِ ریلوے کے دوران انہیں انتظامی چیلنجز، کرپشن الزامات اور ادارے کے زوال پذیر ڈھانچے کا سامنا رہا، تاہم بلور صاحب نے اکثر اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہ کر سیاسی دباؤ کا مقابلہ کیا۔
غلام احمد بلور کئی بار اپنی بے باکی اور متنازع بیانات کے باعث قومی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنے۔ 2012 میں گستاخانہ امریکی فلم *Innocence of Muslims* کے خلاف انہوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر فلم بنانے والے کے قتل پر ایک لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا، جس پر انہیں شدید تنقید اور سیاسی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی طرح 2015 میں فرانسیسی میگزین *شارلی ایبدو* کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر بھی انہوں نے ایسا ہی سخت مؤقف اختیار کیا۔
بلور خاندان، بالخصوص غلام احمد بلور، نے خیبر پختونخوا کی سیاست میں نصف صدی سے زائد عرصے تک جو کردار ادا کیا، وہ نہ صرف انتخابی سیاست بلکہ نظریاتی و مزاحمتی سیاست کی ایک اہم علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔